اپنا بندہ

بیڈ نمبر چار پہ لیٹے ہوئے ساجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاس کھڑی نرس سے ڈاکٹر رمیز نے کہا اس کا خیال رکھنا اپنا بندہ ہے۔
سکارف درست کرتے ہوئے نرس نے بھی جی سر کا گولہ پھینکنے میں قطعاً دیر نہ کی۔
گردوں کی تکلیف میں مبتلا ساجد اپنے حصے کی باقی سانسیں لے رہا تھا ۔اتنے میں ساجد کے بیڈ کے قریب ہی نمبر تین پر لیٹے معمر مریض کے کانپتے ہونٹوں سے نکلے الفاظ لہروں کے دوش پہ سوار ساجد کے کانوں سے ٹکرائے۔ بیٹا تو بڑا خوش قسمت ہے تیرے خیال رکھنے کا ڈاکٹر صاحب نرس کو کہہ کے جارہا ہے ورنہ یہاں تو اپنے ہی گھر والے تسلی دینے نہیں آتے بس بیٹا آیا ضروری سامان اور دوائیوں کا انتظام کیا چلا گیا۔ ساجد نے یہ سنا تو مسکرا کر معمر شخص کو دیکھا اور کہا مجھے اپنا بیٹا سمجھ لیں میں آپ کے ساتھ یہاں جب تک ہوں بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دوں گا۔

شہر کے سب سے بڑے نجی ہسپتال میں موجود یہ دونوں مریض گردوں کی تکلیف میں مبتلاء اپنی زندگی کے تکلیف دہ حصے میں ایک دوسرے کو تسلی دینے کی کوشش میں تھے ۔ یقیناً یہ تسلی ویسی نا تھی جیسے ڈاکٹر رمیز نے اپنا بندہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی تھی ۔ شاید یہ تسلیاں روزانہ کئی مریضوں کے حصے میں آتی رہتی ہیں ۔ ڈاکٹر رمیز کے پاس جب ساجد کو لایا گیا اور بیماری کے بارے میں بات ہوتی ہوتی گھر کے پتہ تک جا پہنچی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر رمیز اسی محلے میں پیدا ہوئے تھے جہاں ساجد کا گھر ہے ۔ بعد ازاں تعلیم مکمل کرنے کے لیے شہر آگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ساجد کو ہم محلہ پا کر ڈاکٹر رمیز نے سب سے پہلے تو مشروب منگوایا اور بعد ازاں یہ کہہ کر ایک ہزار روپے مشورہ فیس کے واپس کردیے کہ آخر ہم ایک ہی محلے میں پیدا ہوئے ہمسائیگی کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ اور پھر میٹھے لہجے میں کہا بھئی آپ تو اپنے بندے ہیں آپ سے کیا مشورہ فیس لینی ۔ ہاں ذرا یہ ٹیسٹ لکھ کے دے رہا ہوں یہ کرالیجیے گا تاکہ بیماری کی مکمل تشخیص ہو جائے ۔ ساتھ ہی ٹیسٹ تجویز کرتے ہوئے لیبارٹری کا نام بھی بتایا اور اپنا نام بھی لکھ دیا کہ یہ دکھا دیجیے گا ۔ساجد اپنے چھوٹے بھائی امجد کے ساتھ اس لیبارٹری کی طرف گیا اور تجویز کردہ ٹیسٹ کروائے۔ فیس ادا کرنے کی باری جھٹکا سا لگا کہ باقی لوگوں کی نسبت پانچ سو روپے زائد لیے جارہے ہیں۔اور ایسے تین چار ٹیسٹ کرانے کی تجویز دی گئی تھی۔خیر یہ سوچ کر فیس ادا کردی گئی کہ ڈاکٹر صاحب نے بڑی تعریف کی اچھی لیبارٹری ہے تسلی بخش کام ہوتا ہے۔ٹیسٹ رپورٹ لے چکے تو ڈاکٹر رمیز کے پاس چیک کرانے آگئے ۔ مرض کی مکمل تشخیص کے بعد ڈاکٹر صاحب نے علاج شروع کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے لمبی سی فہرست میڈیکل سٹور والوں سے مستفید ہونے کے لیے امجد کے ہاتھ میں تھمائی اور جلدی سے مطلوبہ میڈیسن لانے کا کہا ۔ میڈیکل سٹور پر پہنچتے ہی امجد متعجب ہوا کہ دس فیصد ڈسکاؤنٹ کے باوجود بھی سات ہزار روپے کا بل میڈیسن کی مد میں وصول کرلیا گیا

امجد نے ناک بھوں چڑھاتے میڈیکل سٹور پر موجود نوعمر لڑکے سے پوچھا : دوائی کچھ زیادہ ہی مہنگی دی جارہی ہے ؟
جواب ملا : نہ بھئی میں نے تو دس فیصد ڈسکاؤنٹ بھی دیا ہے مہنگی کہاں بھلا۔

امجد نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا آخری چند ہزار رہ گئے تھے اب اگر ہسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تو رقم کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔ مفلسی ہی بیماریاں لاتی ہے پہلے بھوک کم تھی کہ اب اس آزمائش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بوجھل قدموں کے ساتھ دوائی کا شاپر آ کر ڈاکٹر رمیز کی میز پہ رکھا انہوں نے تسلی سے دیکھا اور نرس کو بلا کر ساجد کو بیڈ پر منتقل کرنے کا کہتے ہوئے خود گھر کی جانب روانہ ہوا۔ جتنے روز یہاں ساجد موجود رہا روزانہ میڈیکل سٹور سے مختلف ادویات منگوائی جاتی رہیں گاہے بگاہے صحت میں بہتری آئی یا نہیں اس کی تسلی کے لیے ٹیسٹ بھی تجویز کیے جاتے رہے۔ بعض اوقات تو بوڑھے میاں کہتے کہ یہ میڈیکل بھی عجیب شعبہ ہے نا اگر ٹیسٹ ہی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کیا ہے تو پھر مشورہ فیس کیسی؟ پھر یہ ہسپتالوں میں بڑے بڑے ڈاکٹر کیوں تعینات کیے گئے اگر بیماری کی تشخیص ہی نہیں کر پاتے تو تنخواہ یا فیس کس چیز کے لیتے ہیں؟

ادھر علاج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے امجد نے رشتہ داروں اور احباب سے قرض حسنہ کی اپیل کی۔کسی نے امداد کے نام پہ چند ہزار روپے دیے اور واپسی کا تقاضا نہ کیا تو کسی نے جلد لوٹائے جانے کے وعدہ پر رقم دینے کی حامی بھری۔ غریب بندے سے تھانہ کچہری ہو یا ہسپتال ایک ایک اینٹ پیسے کا مطالبہ کرتی ہے۔ کہیں ٹیسٹ رپورٹ تو کہیں ادویات سے لدے پھندے شاپر بیگ لمحہ بہ لمحہ جیب پہ بھاری پڑتے ہیں۔ ساجد کے ساتھ بیڈ نمبر تین پہ موجود معمر شخص بھی کچھ ایسے ہی حالات سے گزر رہا تھا ساجد کو تکلیف میں دیکھ کر یوں محسوس کرتا جیسے اپنا بیٹا تکلیف میں مبتلا ہے۔ ایک دن پوچھنے لگا بیٹا کام کیا کرتے ہو
ساجد نے جواب دیا بس بابا جی محنت مزدوری اور کیا۔ ہاں چھوٹا بھائی ایک پرائیویٹ ادارے کے دفتر میں ملازم ہے جو کچھ معاوضہ ملتا ہے گھر کا راشن بھی مشکل سے پورا ہوتا ہے لیکن کیا کریں زندگی ہے ماں تو نہیں کہ تکلیف پہنچائے بغیر احساس دلائے بغیر ہر چیز مہیا کردے ۔

بوڑھے میاں نے سرد آہ کے ساتھ تائیدی نظروں سے دیکھا اور کہا ہاں بیٹا والدین کے علاوہ کوئی احساس نہیں کرتا بس سب کے زبانی دعوے ہی ہوتے ہیں۔اچھا بیٹا یہ فروٹ اٹھا لے ویسے بھی مجھ سے کچھ کھایا نہیں جاتا آخر تو بیٹے جیسا ہے تو کھائے گا تو خوشی ہوگی اور ہاں پریشان نہ ہو آج میں اپنے بیٹے سے کہوں گا میری دوائی کے ساتھ تیری دوائی بھی لیتا آئے گا۔
بوڑھے میاں کی باتوں نے عملی جامہ پہنا بیماری نے ان دونوں کا برا حال کررکھا تھا آخرکار
بیماری سے لڑتے لڑتے ساجد نے کچھ روز بعد ہی علی الصبح جان مالک حقیقی کے سپرد کی۔ بیڈ نمبر چار کو خالی کرانے کا وقت آ پہنچا تھا نرس نے ڈاکٹر رمیز کو فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا کہ بیڈ نمبر چار کا مریض وفات پاچکا ہے ان کا بل ابھی تک کسی نے ادا نہیں کیا ایڈمن کا کہنا ہے جب تک پوری رقم کی ادائیگی نہ ہوگی نعش کو ورثاء کے حوالے نہ کیا جائے گا۔
ڈاکٹر رمیز نے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ جب بل کی ادائیگی کرلیں مجھے بتائیے گا میں ذرا فیملی کے ساتھ باہر گیا ہوا ہوں۔

امجد کے ہاتھوں میں ہسپتال کا بل اور سامنے بڑے بھائی کی نعش یہ سب کسی قیامت کے منظر سے کم نہ تھا۔ بیڈ نمبر تین کے بوڑھے میاں نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھنے کی ناکام کوشش کے بعد اپنی قمیض کی جیبوں کو ٹٹولا کہیں کونے کھدرے میں تین ہزار روپے کسی ویرانے میں پڑے بوسیدہ اوراق کی طرح لپٹے ہوئے ملے اور جھٹ سے وہ امجد کے ہاتھوں میں پہنچا دیے اب بقیہ رقم کا انتظام بیچارہ کہاں سے کرتا کئی احباب سے بات کی گئی جواب میں سوائے تعزیت کے کچھ نہ ملا۔آخرکار ایک قریبی عزیز نے مطلوبہ رقم کا بندوبست کردیا تاکہ جلد از جلد نعش ورثاء کے حوالے کی جائے اور تجہیز و تکفین کا عمل مکمل ہو سکے۔بیڈ نمبر چار کے مریض کا بل ادا کیا جا چکا تو نرس نے دوبارہ ڈاکٹر رمیز کو اطلاع دی کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر صاحب کار پارک کرتے ہوئے فوراً بیڈ نمبر چار کی طرف آئے دیکھا کہ میت ورثاء کے حوالے کی جارہی ہے اور امجد آنسوؤں سے تر چہرہ لیے خارجی دروازے کے پاس کھڑا ایمبولینس والے سے بات کررہا ہے ۔ ڈاکٹر رمیز سے رہا نہ گیا جاکر امجد کو سینے لگایا تعزیتی جملے ادا کیے اور ایمبولینس والے سے یہ کہہ کر واپس اپنے روم کی طرف چل دیئے کہ دھیان رکھیے گا اپنا بندہ ہے

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-