رمضان المبارک اللہ تعالی کی رحمتوں اور بخشش کا مہینہ

رمضان المبارک اللہ تعالی کی رحمتوں اور بخشش کا مہینہ ہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اس مہینے میں عبادات کے زریعے اپنے تمام تر گناہوں کو بخشوانے کا موقع نصیب ہوتا ہے ۔اللہ تعا لی نے سابقہ امتوں کی طرح امت محمدیہ ۖپر بھی روزے فرض کیے تاکہ امت تقوی و پرہیز گاری حاصل کرے اور اپنی عبادات کا ذیادہ سے ذیادہ ثواب حاصل کرے۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں نفل عبادات کا ثواب فرض کے برابراور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔اس مہینے میں امت محمدیہ ۖ کے لیئے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں۔سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔روزہ وہ مبارک عمل ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ ” روزہ میرے لیئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔”روزہ ہی وہ عبادت ہے جس کے زریعے اللہ کا قرب اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔اور ذ ہنی اور قلبی سکون حاصل ہوتاہے،۔خواہشات دب جاتی ہیں،دل کا زنگ دور ہوجاتا ہے ۔،انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے ۔روزے کے زریعے غربا اور مساکین سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔رمضان المبارک ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی صورت نازل کی جو قیامت تک کے لئے آنے والے لوگوں کے لیئے رشد و ہدایت کا سر چشمہ رہے گی۔قرآن مجید اور احادیث میںرمضان المبارک کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کے ثمرات و برکات سے محروم نہ رہ جائیں۔رسول پاک حضرت محمد ۖ کا ارشاد ہے “لوگو تم پر بڑا ہی عظمت و برکت کا مہینہ سا یہ فگن ہونے جا رہا ہے ،جس شخص نے روزہ عقیدت و ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رکھااور رمضان کی راتوں میں قیام کیا ،اسکے سارے پچھلے گناہ بخش دئے جائیں گے ۔”روزے کی اہمیت سے متعلق آپۖ کا ارشاد ہے ۔”جو شخص قصداً بھی روزے نا رکھے بغیرکسی رخصت مرض کے ،اگر وہ زندگی بھربھی روزے رکھے تو رمضان کے ایک روزے کا بدل نہیں ہوسکتا “حضرت سلیمان فارسی فرماتے ہیںکہ نبی کریم ۖ نے شعبان کی آخری تاریخ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا “تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت عظیم ہے جس میں ایک رات (شب قدر) ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اللہ تعا لی نے اس کے روزوں کو فرض فرمایا اور اس کی راتوںمیں قیام کے عمل (تراویح) کو ثواب کا عمل قرار دیا۔”جو شخص اس مہینے میں روزے کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ وہ غیر رمضان میںستر فرض ادا کرے ۔یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلا جنت ہے ۔یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کرنے کا مہینہ ہے ۔اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ۔جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کروائے گا تو یہ عمل اسے قیامت کے روز اسکے گناہوںکی معافی اور نار جہنم سے نجات کا سبب بنے گا ۔مگراس سے روزہ دارکا ثواب کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔”صحابہ اکرام نے عرض کی یا رسول اللہۖہم میں سے کوئی اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو روزہ افطار کروائے۔

آپۖ نے فرمایا کہ یہ ثواب پیٹ بھر کھانا کھلانے پر موقوف نہیں،یہ ثواب تو اللہ تعا لی ایسے شخص کو بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور سے افطار کرائے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے ۔یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ،درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے ۔آپ ۖ نے فرمایا کہ “چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو۔پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے ۔اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو (آگ) سے پناہ مانگو”جو شخص کسی روزے دار کو پانی پلائے گااللہ کریم قیامت کے دن اسے اپنے حوض سے ایسا سیراب فرمائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔آپ ۖ نے یہ خطبہ رمضان کے استقبال کے موقع پر دیا اس کے بعد نبی کریم ۖ نے اس مہینے کی کچھ خصوصیات اورآداب ارشاد فرمائے ۔اول یہ کہ صبر کا مہینہ ہے یعنی اگر روزے کے دوران کچھ تکلیف ہو تو اسے بہت شوق سے برداشت کرنا چاہیئے یہ نہیں کہ مار دھاڑ کی جائے جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے ۔غرض ہر حا ل میں صبر ہی کرنا چاہئے۔پھر ارشاد ہوا کہ یہ غم خواری کا مہینہ ہے ۔یعنی اس مہینے میں غربا و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے ۔آپ ۖ نے ارشاد فرمایا “جو شخص حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کروائے اس پر رمضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیںاور شب قدر میں جبریل اس سے مصافحہ کرتے ہیں ۔اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے “حضور پاک ۖ نے فرمایا کہ تین لوگوں کی دعا رد نہیں ہوتی ایک روزہ دار کی افطار کے وقت دوسرے عادل بادشاہ تیسرے مظلوم کی “انکی دعاووں کو اللہ تعا لی بادلوں سے اوپر اٹھا لیتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ میں تیری مدد ضرور کروں گا۔گو ( کسی مصلحت ) کی وجہ سے کچھ تا خیر ہوجائے ۔ایک روایت میں آپ ۖ نے فرمایا”جو شخص قصداً بغیر کسی عزر کے رمضان کا ایک روزہ چھوڑ دے پھر غیر رمضان میں جتنے مرضی روزے رکھ لے اس کا نعم البدل نہیں ہوسکتا یعنی جو رحمتیں اور انوارات رمضان کے مہینے میں نازل ہوتی ہیں وہ پھر زندگی بھر حاصل نہیں ہوتیں۔رسول اکرم ۖ نے فرمایا”جس نے رمضان کے روزے محض اللہ کے واسطے ثواب کی نیت سے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جائیںگے ۔ایک جگہ نبی کریم ۖ نے فرمایا “روزے رکھا کرو تندرست رہو گے “۔روزوں کے فیوض و برکات سے صحیح طور پر مستفید ہونے کے لئے روزے کے آداب کا خیال رکھنا اور احترام کرنا ضروری ہے ۔روزہ پورے جسم کا ہے ،ّآنکھ،کان،ناک،ہاتھ ،پائوں غرض پورا جسم روزے کی حالت میں ہوتا ہے ۔

آنکھ کے روزے سے مراد ہے کہ آنکھ کوئی غیر اسلامی چیز نہ دیکھے ۔کوئی فلمیں ،وٹس ایپ پر تصاویر اور ویڈیوز نہ دیکھی جائیں صرف تلاوت قرآن کی جائے اور اپنی نظر کو ہر غیر مہذب فعل سے پاک رکھا جائے ۔اسی طرح کان سے کوئی غیر اخلاقی گفتگو نہ سنی جائے اور زبان کے روزے سے مراد ہے کہ زبان سے کوئی بیہودہ گفتگو اور غیر اسلامی بات نہ کی جائے اور دوسرے لوگوں کو اپنی زبان کے شر سے محفوظ رکھا جائے اور غیر ضروری بحث و تکرار سے گریز کیا جائے ۔ہاتھ کے روزے سے مراد ہے کہ اپنے ہاتھوں سے کوئی ایسا فعل نہ کیا جائے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث بنے ،کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور پائوں کے روزے سے مراد ہے کہ ہمارے قدم ہمیں نہ بہکائیں کہ ہم غلط محفلوں میں جائیں جہاں جا کر ہمارا ایمان متزلزل ہو جائے اور ہم اپنے اخلاقیات سے گر جائیں ۔غرض روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں تمام جسم روزے کی حالت میںہوتا ہے ۔رومضان کے فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے ہمیں پورے خلوص نیت سے روزے کے تقاضے پورے کرنے چاہیں پھر ہم اللہ کی رحمتوں کے خزانے سمیٹ سکیں گے۔اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔آمین

کالم نگار کی رائے سے ادارے کامتفق ہونا ضروری نہیں-