2020مجھے ساری زندگی نہیں بھول سکتا اس سال نے انسانیت کو کررونا وائرس جیسی وبا کے امتحان میں ڈالا جو خود تو نظر نہیں آتی تھی مگر کئی واقعات دیکھا کر گئی جب ملک بھر میں لاک ڈاون لاگو کر دیا گیا یہ کہانی ہے ایک ایسے مزدور کی جو روزانہ اپنا کنواں کھود کر پانی نکالتاتھا یعنی روز کمایا تو کھایا ورنہ فاقہ ہے لاک ڈاون کو دو سرا ماہ تھا عوام گھروں میں قید تھی جن کے گھر وافر راشن اور رقم تھی وہی بے فکر تھے باقی سبھی خوراک کی خوراک بنتے جا رہے تھے مشکل میں مصیبت کو دور کرنے والے انسانوں کے جہان کا تو پتا نہیں مگرپاکستان پنجاب کے مسلمانوں نے اپنی دوکانوں پر پڑی چیزیں مہنگی کر دی تھیں دور حاضرمیں یہ مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے لوگ حیوانوں کو اشرف المخلوقات ہونے پر کبھی پچھتانے نہیں دیتے۔ ناجانے کتنے لاچار بے بس غریب انسانوں کو کورونا وائرس کے دور میں موت کا خوف اپنی لپیٹ میں مبتلا کر چکا تھا مگر یہ کہانی ایک ایسے غریب مزدور کی جس نے اپنے بچوں کی بھوک مٹانے میں ناکامی کا یہ حادثہ پیش کیا کہ شہر کے بیچ میں ایک درخت پر پھندہ بنا کر جھول گیا اس کی تصویریں سوشل میڈیا پر دیکھیں تو روح کانپ اٹھی قریبی شہر کا واقعہ تھا میں بھی دو بچوں کا باپ ہوں اور باپ کے حساس دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن اس خوفناک موت کا شکار ہونے والے باپ کے گھر پہنچا اور دیکھا ایک چھوٹا سا گھر جس کی کچی دیواریں اور چھت اس میں رہنے والوں کے حالات بیان کر رہی تھیں بیوہ اپنی بچیوں کو آغوش میں لیے خون کے آنسو بہاتی ہوئی کہہ رہی تھی بیٹی کا رشتہ طے کیا تھا اس کے سسرالیوں کو گمان تھا کہ باپ جہیز میں کچھ نہ کچھ تو ضرور دے گا مگر اب وہ بھی دامن چھڑواتے نظر آ رہے ہیں ہو سکتا ہے کچھ روز میں شادی سے انکار کر دیں مجھ سے کچھ بولا نہ گیا اور اگلے نقصان کا اعلان سن کردکھی سا لوٹ آیا کسی غیبی طاقت نے مجھے ان کے لیے کوشش کرنے پر مجبور کر دیا –
میں نے اپنے ایک بیرون ملک مقیم کزن سے مدد کی بات کی تو اس نے مجھے بیس ہزار روپے بھیجے کچھ رقم میں نے اپنے شافع محشر ؑکے غلام مسیحا سے حاصل ہونے والی شامل کی اور مزید کے لیے بے قرار ہو گیا روز میرا دل مجھے کسی نیلام گھر جہیز والے کے پاس پہنچنے کو مجبور کرتا اور میں سوچتا کہ معمولی سی رقم سے جہیز کا سامان متاثرہ گھر میں کیسے پہنچ سکتا ہے مگر مجھے چلانے والی طاقت نے جہیز مارکیٹ جانے پر مجبور کر دیا بندے کی جیب میں پچاس ہزار ہو اور دو ڈھائی تین لاکھ کا سامان لینے چلا جائے ظاہری طور پر تو یہ بے وقوفانہ جرت ہے جس کا نتیجہ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں مگر یہ جو صاحب حیثیت لوگ ہوتے ہیں ان کو قدرت اپنے کسی بندے کی مدد کے لیے صاحب دل بھی کر لیتی ہے میں دوکانوں کے آگے سے گزر رہا ہوں اورمیری نظریں دوکان میں سامان نہیں انسان تلاش کر رہی تھیں خدا کی حکمت سے واقفیت کا پہلو بھی سن لیجئے مالک خوبصورت روحوں پر خوبصورت چہرے سجاتا ہے ہمارا واسطہ کئی ایسے افراد سے پڑتا ہے جن کی شکل دیکھ کر عقل محبت کے احساس کا پتا دیتی ہے اور کئی ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے ہمارا بگاڑا بھی کچھ نہیں ہوتا اور وہ ہمیں اچھے بھی نہیں لگتے یعنی نظریں کئی چہروں کو روح کے فیصلے پر چھوڑ دیتی ہے اور کئی چہرے دل کے فیصلے میں آ جاتے ہیں ایسے ہی میں ایک دوکان مالک بزرگ انسان گورا چہرہ سفید داڑھی سفید لباس ہونٹوں پہ تبسم نگاہوں میں مہربانی ہماری نظریں ملتے ہی توجہ کا جذبہ اجاگر ہوامیں ان کی طرف کھنچا چلا گیا اور انہوں نے مجھے اپنی طرف آتے ہی ملازم کو کرسی لانے کا پیغام دیا میں قریب پہنچا تو کرسی مجھ سے پہلے پہنچ گئی میں نے سلام کیا جواب دیتے ہی تشریف رکھیے کا اشارہ زبان اور ہاتھ پر اتر آیامیں کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا کہ بات کیسے اور کہاں سے شروع کروں وہ میرا چہرہ دیکھتے رہے میں نے ہمت جمع کرکے کہا محترم میں گاہک نہیں خدا کا پیغام ہوں جو آیا نہیں بھیجا گیا ہوں پھر موبائل سے وہ غریب مزدور کی پھانسی لینے والی تصویر سامنے کرتے ہوئے واقعہ بیان کیا کہ میں حادثے کے بعد اس کے گھر گیا تھا اس کی بیوی اور بچیاں اپنی زندگی کا خدا سے اس بات کا شکوہ کر رہی تھیں کہ اس دور میں کیوں پیدا کیا جس میں انسان تو ہیں مگر انسانیت نہیں بستی کاش ہمارے ہاں ہمسائیوں کے حالات سے باخبر رہنے کی روایت زندہ ہوتی تو ہمارا باپ عزت نفس کی رسی کو اپنے گلے کا ہار بنا کر انسانوں کے جہاں سے روانہ نا ہو جاتا اور چوک میں پھندا لینا یعنی انسانوں میں انسانیت جگانے کی کوشش تھی ورنہ مر تو وہ گھر کی چاردیواری میں بھی سکتا تھا۔
اس بزرگ بندے کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے شروع ہوئے کہنے لگا ہمیں قدرت کا کیا کام کرنا ہے؟ میں نے کہا اس کی ایک جوان بچی ہے جس کا رشتہ طے کرکے گیا تھا اب وہ لوگ جہیز کے سامان کے ناملنے کی وجہ سے رشتہ توڑ سکتے ہیں اگر کچھ سامان میسر آ جائے تو ہم مرنے والے کوتو نہیں بچا سکے مگر گھٹ گھٹ کر زندگی اور حالات کو کوسنے والی ایک بچی کا گھر بسنے سے پہلے اجڑ جانے سے بچا سکتے ہیں اور وہ رقم جو میرے پاس تھی نکالتے ہوئے ان کی طرف بڑھا دی انہوں نے وہ رقم گنی بھی نہیں اور ملازموں کا بلا کر کہا جو سب سے اچھا جہیز کا سیٹ پڑا ہے وہ گاڑی میں لوڈ کرو اور چائے کے لیے آڈر دوکہ اللہ کا قاصد ہمارا مہمان بنا ہے میں اپنی خود غرضی کی غلاظت سے بھری اوقات دیکھتے ہوئے رو پڑا کہ مالک نے کیسا کام لیا جس نے مجھے انسانیت کا ترجمان بنا دیا بس ایک عیب چھپانے والی رحمت کی چادر تھی جس نے میرے کردار کو انمول بنایا ہوا تھا۔سامان لوڈ ہوا تو اس بزرگ بندے نے گاڑی ڈرائیور کو کرایہ دیتے ہوئے کہا کسی سے کوئی پیسوں کا مطالبہ نہ کرنااوران صاحب کے ساتھ چلے جاو جہاں یہ کہیں سامان چھوڑ آنامیرے پاس اس بزرگ بندے کا شکریہ ادا کرنے کے الفاط نہیں تھے مگر اس کا جواب قدرت خود ہی اسے دے گی میں گاڑی والے کے ساتھ بیٹھااور ہم متاثرہ گھر کی جانب روانہ ہو گئے میں دل میں اس بیوہ ماں کی کیفیت کو محسوس کرکے اشک بہا رہا تھا کہ جب اس بچی اور ماں کو معلوم ہوگا کہ قدرت نے ان کی روح کا ایک بڑا بوجھ ہلکا کر دیا ہے تو ان کی کیفیت کیا ہوگی مجھ سے یہ منظر دیکھا نا جائے گا مالک ہمت عطا کرئے گا ہم دو گھنٹے بعد اس متاثرہ گھر کے دروازے پر پہنچے دستک دی اندر سے بچی کی آواز آئی کون؟بیٹی اللہ کا بندہ ہوں اپنی ماں کو کہو وہ جو بندہ دوسرے شہر سے تعزیت کے لیے آیا تھا وہ دوبارہ آیا ہے ملنا چاہتا ہے بچی نے اپنی ماں کو بتایا تو اس نے اندر آنے کی اجازت دی میں اندر گیا ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھی عورت نے میرا دیکھا ہوا چہرہ پہچان لیا میں نے سلام کیااوردونوں ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اللہ نے آپ کی بچی کے لیے سامان بھیجا ہے اسے قبول کرکے مجھ پر احسان کریں ان کے زہن میں آیا کہ کوئی چھوٹی موٹی رقم یا چیز ہوگی جو ابھی میں جیب سے نکال کران کے حوالے کروں گا مگر میں نے ان کا ہاتھ تھاما اورانہیں دروازے سے باہر گاڑی کے پاس لے آیا ڈرائیور سے کہا ترپال ا±ٹھا ئیں جب جہیز کے سامان پر اس عورت اور بچی کی نظر پڑی تو وہ بے اختیار روتیں ہوئیں آپس میں گلے لگ گئیں بچی ماں کو کہنے لگی بابا نے خدا کے پاس جاکر خدا کو منا کر میری زندگی کے آباد ہونے کا سامان بھیجا ہے بھلا ایسا بابا کسی بچی کو نصیب ہوا ہو گا جو مجھے ملا تھا۔
ہم نے سامان گاڑی سے نکال کر ان کے کمرے میں رکھنا شروع کیا گلی میں ہمسائیے دیکھتے گزرتے تو وہ عورت کہتی میرے میاں نے اللہ کے پاس جا کر ہمارے زخم دیکھائے تو رب نے مرہم بھیجا ہے مکمل سامان حوالے کرنے کے بعد اس کی تصویریں بچی کے سسرال والوں کو بھیجیں تو انہوں نے فوری آنے کا کہہ کر فون بند کر دیا ان کے آنے سے پہلے میں وہاں سے بیوہ کو یہ کہہ کر روانہ ہو گیا کہ یہ میرا نمبر ہے شادی کی تاریخ طے کرکے بتا دیجئے گا اور اس کا شکریہ بھیجنے والے رب کو ادا کیجئے گااس رات اس گھر میں لاوارثی کا نا صرف احساس ختم ہوا بلکہ دکھ کے جسموں نے خوشی کا لباس بھی پہناافلاس کے ہاتھوں ننگے ہوتے انسان محفوظ ہو گے دو روز بعد اس عورت کا فون آیا کہ بچی کے سسرال والوں نے بچی کو آنکھوں پر بیٹھا کر بسانے کا یقین دلایا ہے ہم نے ایک ماہ بعد شادی کی تاریخ مقرر کر لی ہے سو لوگ بارات میں آئیں گے مجھے طے شدہ تاریخ کا بتایا گیا تو میں کچھ روز بعد ہی اسی شہر کے ایک شادی ہال کے مالک کے پاس پہنچا اور اسے اپنا تعارف کروا کر سارا ماجرہ سنایا وہ شخص اس موت سے باخبر تھا مگر جب میری زبانی بات سنتا گیا تو اس کے دل پر قدرت کا احساس نازل ہوتا گیا وہ میرے جڑے ہاتھ اشکوں میں بھیگے منت سے لبریزالفاظ سنتے ہوئے اپنی خاموشی توڑ کر کہنے لگا بھائی خدا کا کام ہے میرے شادی ہال کا مجھ پر کوئی خرچہ نہیں مگر بارات کا کھانا میری طرف سے ہوگا ورنہ میں رب کو منہ دیکھانے کے قابل نہیں رہوں گا ساری زندگی پیسا کمایا ہے آج انسانیت کمانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا ہم دونوں متاثرہ گھر میں گئے اور اس بیوہ عورت کو بارات کے سارے انتظامات کے بارے میں بتایابچی کے دلہن کے لباس سے لے کر عام پہنچے کے کپڑے جوتے اور باقی افراد کے شادی پر پہننے کے جوتے کپڑے جیسی تمام اشیاء سے بے فکر کرکے اٹھے کچھ روز بعد یہ سامان شادی ہال کے مالک اور اس کی بیوی کے ہاتھوں پہنچ گیا مجھے بتایا اور ساتھ کہا کہ جہیز کے موجود سامان کے علاوہ کسی اور سامان کی ضرورت و فکر نہیں بچی کے سسرال والوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا ہے کہ لڑکے نے باقی انتظام کر لیا ہے شادی ہال کے مالک نے اپنے صاحب حیثیت دوستوں کو بتایا تووقت آنے پر ان میں کسی نے مہندی کا سامان پہنچایا تو کسی نے کھانا ہمسائیوں کے ساتھ بیوہ عورت کے اپنے اور خاوند کے قریبی عزیزارقاب نے ان متاثرہ افراد کے سر پر چھوٹی چھوٹی مہربانیوں کی چھت بنا ڈالی اگلے دن شادی ہال میں بارات پہنچی نکاح پڑھایا گیا شاہی کھانا کھلایا گیا مجھے یقین ہے یہ شادی آسمان والے کے کیمرے میں ریکارڑ کی گئی اور خود کشی کرنے والے باپ کی روح نے آسمان سے رب کی رحمت کے پھول اپنی بچی پر برسا کر رخصت کیا ہوگا کیونکہ دلہن اس موقع پر اپنے بابل کے سینے لگ کر کندھے پہ سر رکھ کے رونے والے احساس میں جکڑی کہہ رہی تھی یہ وہی شادی ہے جس کا میرا بابل دلاسہ دیا کرتا تھا۔میں اس موقع پرجان بوجھ کر شریک نہیں ہوا کہ بچی یا اس کی ماں کی عزت نفس مجروع نہ ہو ان کی نگاہوں میں اس احسان کی تصویر نہ اتر آئے جو میں نے کیا ہی نہیں بلکہ میں تو خود اپنی روح کا سجدہ خدا کے حضور پیش کر رہا تھا جس نے مجھے آسمانی فیصلے کی تکمیل کا حصہ بنایا ہاں میں اتنا ضرور کہوں گا اس سوئے ہوئے احساس انسانیت کے معاشرے میں درد انسانیت کے شعور کو اجاگر کیا جائے تو کوئی غریب لاچار بے بس زندگی خود کشی نہ کرئے انسان موت کو گلے تب لگاتا ہے جب معاشرہ انسانیت کو گلے لگانا چھوڑ دیتا ہے-
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-