کرپشن اور گرتی معیشت

کسی ریاست میں کرپشن تمام برائیوں کی ماں ہوتی ہے، یہ دھیمک کی طرح پورے ملک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے، جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا ملک ترقی کرے! ایسا ممکن نہیں ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ ہر گزرتے دن بڑھ رہی ہے۔ 1947ء سے کرپشن اور بدعنوانی نے پاکستان میں پہلے گھونسلہ بنایا اور پھر اپنا مستقل مسکن ہی بنا لیا۔ 1947ء کے بعد سے اب تک اینٹی کرپشن کے ایکٹ بنے ، شعبہ جات قائم ہوئے ، کم از کم30 مرتبہ کسی نہ کسی حوالے سے کرپشن کے خلاف اقدامات کا آغاز ہوا۔یکم نومبر1991ء میں ایک جامع قانون NAB(National Accountability Bureau)نفاذ ہوا ۔قومی احتساب بیورو نے نامساعد حالات میں بہت سے بد عنوان عناصر کا پوسٹ مارٹم کیا ۔ اس ادارہ نے کرپشن کے پَھن پھیلائے اژدھا کو قابو میں لانے کی کوشش شروع کی مگر افسوس اس بات کا یہ ادارہ بھی اپنی شفافیت زیادہ دیر تک برقرار نہ رکھ سکا اور پاکستان میں کرپشن کی تحقیقات کرنے والا سب سے بڑا ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے ملک میں کوئی کرپشن کرنے والا نہیں چھوڑا لیکن حقیقت میں وہ صرف ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، کرپشن، بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے اس ناسور کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب لوگ بدعنوانی کے مرتکب ہو کر بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں، اسے عقل، عیاری، چالاکی،ذہانت، ہنر سمجھتے ہیں۔
اخبارات بڑے پیمانے پر قومی خزانے کی لوٹ مار کی کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں، کرپشن جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، جس کا تدارک ناگزیر ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ چوری، ڈکیتی، جنسی زیادتی، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔

کراچی، اسلام آباد، پشاور، غرض کسی بھی شہر کے بارے میں تحقیق کریں، جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام الناس پولیس اور تھانے کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ جائز کاموں کے لئے بھی پولیس کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ اب تو یہ خبریں بھی ہمارے سامنے ہیں کہ پولیس اہلکار بہت سی چوری، ڈکیتی، اغوا کی وارداتوں میں براہ راست ملوث ہوتے ہوئے، مجرموں کی معاونت او ر سہولت کاری کرتے ہیں۔ واقفان حال بخوبی آگاہ ہیں کہ سرکاری ٹھیکوں کے حصول کے لئے لاکھوں، کروڑوں کی رشوت یا تحفے تحائف وصول کیے جاتے ہیں۔ سرکاری مال ”مال مفت دل بے رحم“ کی مانند لٹایا جاتا ہے۔ عمارتیں، سڑکیں، شاہراہیں بنتی ہیں تو ناقص میٹریل کے سبب ذرا سی بارش کے نتیجے میں نئی سڑکوں میں شگاف پڑ جاتے ہیں۔ بلند و بالا عمارتیں منہدم یا توڑ پھوڑ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس ضمن میں احتساب کا کوئی قومی نظام نہیں ہے۔ عدلیہ کی بات کی جائے تو ہر شریف آدمی کورٹ کچہری کے نام سے بدکتا ہے۔ انصاف کے متلاشی سائلین کی زندگیاں کورٹ کچہری میں خوار ہوتے گزر جاتی ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا۔ ججوں کی کرپشن کے قصے بھی زبان زد عام ہیں۔ برسوں قبل غالباً جسٹس ناصرہ جاوید اقبال نے کہا تھا کہ پہلے زمانے میں لوگ وکیل کیا کرتے تھے، اب جج کر لیتے ہیں۔ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا عدالتی نظام قانون کی حکمرانی کے ضمن میں 139 کی فہرست میں130 ویں درجے پر ہے۔ پلی بارگین“ کی اصطلاح ہمارے ملک میں زبان زد عام ہے، جس کی بنیاد پر اربوں کھربوں ڈکارنے والے کروڑوں اور لاکھوں دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔

عصرِ حاضر میں پاکستان کی معیشت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ  بدعنوانی’کرپشن اور لوٹ مار ہے   بدعنوان عناصر پاکستان کی تعلیم ، صحت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں حائل ہیں۔ پاکستان کی 60% فیصد آبادی غربت کا شکار ہے۔صاف پانی ، طبی سہولتوں ، تعلیمی سرگرمیوں ،بجلی ،گیس اور اسی قسم کی لازمی ضروریات سے محروم یہ طبقہ گداگری اور دیگر سٹریٹ کرائمز میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف اجتماعی جنگ کریں۔ آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کے بعد پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ کرپشن سے ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 میں پاکستان میں کرپشن کم ہوئی اور 2 سکور بہتری کے ساتھ ملک 29 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 180 ممالک کی کرپشن انڈیکس رپورٹ جاری کی ہے اور اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2023 میں کرپشن میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کرپشن میں کمی پر پاکستان کا سکور 2 کی بہتری کے ساتھ  29 رہا، کرپشن سے متعلق 2022 میں پاکستان کا سکور 27 تھا۔ ‘ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق مجموعی رینکنگ میں پاکستان 140 سے 133 نمبر پر آ گیا ہے۔ رپورٹ میں پی ڈی ایم دورِ حکومت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن میں کمی کے لیے کی گئی پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان 2023 میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں بہتری آئی ہے۔

اب نئی بننے والی حکومت دیکھتے ہیں ان چیلنجز سے کیسے نمٹتی ہے کیونکہ و منتخب وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا پہلے دن ہی کہنا ہے کہ کرپشن کے خلاف میری زیرو ٹالرینس ہے۔۔ اس دیکھنا یہ ہے اس بات میں  آنے والے وقت میں کتنی حقیقت ہو گی۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-