بےقابو مہنگائی عوام اور عید

نئے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں بھی عوم کے مسائل میں کمی نہیں کر سکیں۔ مہنگائی پر قابو پانا تو دور کی بات اس میں اضافہ والے اقدام ہی ہوئے ہیں۔ پٹرول 9.66 روپے فی لیٹر مہنگا کر دیا گیا جو حقیقت میں اب 290 روپے فی لیٹر سے زیادہ میں ملے گا۔ اس پر احتجاج شروع ہے حکومت آئی ایم ایف کے دباؤ کے باعث لیوی اور ٹیکس میں کمی کیا کرنا ہے، مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔  جہاں تک مہنگائی کا معاملہ ہے تو یہ رسد اور طلب کا سلسلہ ہے رسد زیادہ، طلب کم تو مہنگائی بھی کم ہو گی۔ اس لئے ضرورت رسد پورا کرنے اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کی ہے۔

رمضان شروع ہوتے ہی کہا جاتا ہے کہ اگر عوام کچھ دن گوشت ،فروٹ اور بازاری سموسے پکوڑے نہ کھائے تو بہت سی چیزوں کی قیمتیں نیچے آ جائیں ۔یہ تو آنکھیں بند کرنے والی بات ہوگی۔ آنکھیں بند کرنے سے بھی کبھی مشکل وقت گزرتا ہے ۔ آج کل پاکستانی حکومت کے آئی ایم ایف کے وفد سے مذاکرات ہورہے ہیں۔ان مذاکرات کی کامیابی کی شکل میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس مقدس مہینے میں لوگوں کو ہر بار شدید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ اب کی بات نہیں بلکہ ہم نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ ہر سال رمضان کے بابرکت دنوں دکانوں، ریڑھیوں،  ٹھیلوں اور گلی محلوں میں ہر ضر وری استعمال کی جنس کا نرخ بڑھ جاتا ہے ۔پاکستان میں اکثریتی آبادی مسلمانوں کی ہے ۔بحثیت مسلمان ہر کسی کا یہ عقیدہ ہے کہ رمضان میں عبادات کا ثواب کئی گنا زیادہ ملتا ہے اسی طرح یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس مہینے لوگوں کے لیے آسانیاں مہیا کرنے سے بھی خالق بہت راضی ہوتا ہے۔ مگر درحقیقت عملی طور پر ایسا کچھ دیکھنے میں کبھی نہیں آیا۔۔۔بلکہ اس کے برعکس ہر بار پہلے سے زیادہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال کے ان کا خون چوسہ جاتا ہے

ماضی میں حکومتیں تہواروں پر عوام کو خوشخبریاں سناتی تھیں، ریلیف دیتی تھیں مگر اس نئی نیوالی حکومت نے اس روایت کو بھی بیک جنبشِ قلم ختم کر دیا ہے۔ عید سے چند روز پہلے پٹرول کی قیمت میں اضافہ کر کے عید کا سارا مزہ کرکرا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کل مجھے بازار جانے کا اتفاق ہوا مجھے یاد ہے کہ عید کے دنوں میں یہ بازار کھچا کھچ بھرا ہوتا تھا اور خریداروں کی ایک بڑی تعداد دکانوں کے باہر اندر موجود ہوتی تھی، تاہم مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ رش کا وہ عالم نہیں اور دکاندار بھی فارغ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے  دکاندار سے پوچھا کہ کیا سارا دن بازار کے یہی حالات رہتے ہیں، تو کہنے لگے عید کے لئے جو ضروری اشیاء ہیں وہ تو خریدی جا رہی ہیں تاہم وہ گہما گہمی نظر نہیں آ رہی جو ماضی میں عید کے موقع پر دیکھی جاتی تھی۔ اس کا سبب انہوں نے عوام کی قوت خرید میں کمی کو قرار دیا، مہنگائی نے ان کی خوشیوں کو بھی نگل لیا ہے۔ بات ان غریبوں کی ہونی چاہیئے جن کے پاس اب دو وقت کی روٹی کھانے کے بھی اسباب نہیں رہے۔ وہ عید کیسے منائیں، اپنے بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے کیسے لے کر دیں، ایسے کڑے حالات میں بھی جب حکومت یہ نہ بھولے کہ اس نے پٹرول کی قیمت بڑھانی ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ تختِ اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے سینے میں دل نہیں یا پھر وہ یہ نہیں جانتے کہ خلقِ خدا کس حال میں ہے اور زندہ رہنے کے لئے کیا جتن کر رہی ہے.کہتے ہیں کہ رمضان میں شیطان قید ہو جاتا ہے کاش اس کے چیلے بھی قید ہو جائے تاکہ رمضان مکمل طور پر مہنگائی کے شر سے محفوظ ہو جائے۔

قیمتوں میں اضافے کا مسئلہ ہر سال رمضان ، عیدین اور دیگر مواقع پر سامنے آتا رہتا ہے، کسی حکومت نے اس کے مستقل حل پر توجہ نہیں دی۔ان حالات میں گھریلو اخراجات کا انتظام کرنا ایک چیلنج ہے، خاص طور پر کم تنخواہ کے ساتھ گزارا کرنا محال ہو چکا ہے۔ضروری ہے کہ متعلقہ سرکاری محکمے رمضان المبارک کے دوران بنیادی اشیا کی قیمتوں کو مناسب سطح پر رکھنے کا موثر نظام تشکیل دے کر عوامی شکایات کا ازالہ کریں۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-