نئی مخلوط حکومت اور درپیش چیلنج

اللہ اللہ کرکے انتخابی عمل پورا ہو گیا لیکن استحکام تاحال نظر نہیں آرہا، مگر ملک پر جو غیر  یقینی کی فضاء چھا ہوئی تھی اس میں کچھ حد تک کمی تو آئی ہے وہ اس لئے بھی کہ حکومت سازی کے حوالے سے خدشات اب ختم ہوگئے ہیں۔
ان انتخابات میں یہ ابہام اس لیے بھی پیدا ہوا کہ الیکشن 2024ء کسی نظریے، فکر اور  سوچ کی بنیاد پر نہیں لڑا گیا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے کوئی جامعے بیانیہ تشکیل دیا بلکہ محض جذبات  کو ابھار کر، للکار کر اور  ایک دوسرے پرکیچڑ اُچھال کر کردارکشی کرکے انتخابی مہم چلائی گئی۔۔۔  جس سے سیاست کا کھیل بگڑتا چلا گیا ، اب صورتحال یہ ہے کہ سیاسی بساط  بچھانے والے ناکام نظر آ رہے ہیں سیاستدان ویسا ہی سب کچھ کر رہے جیسا وہ کرتے آئے ہیں۔ نا اتفاقی، کشمکش، ہوس اقتدار، عہدوں کی بندر بانٹ اور بیان بازی۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔

یہ ملکی تاریخ کا پہلا تجربہ ہے جب ایک ایسی مخلوط حکومت معرضِ وجود میں آ رہی ہے جس میں کسی جماعت کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں۔ سادہ اکثریت تو دور کی بات ہے اتنی سیٹیں بھی حاصل نہیں کہ کسی چھوٹی جماعت کے ساتھ حکومت بنا سکے،اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) آپس میں نہ ملیں تو مرکز میں حکومت بن ہی نہیں سکتی۔ایک آپشن یہ تھا کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف مل  کر حکومت بنا لیتیں،مگر عمران خان کا پرانا اسٹینڈ اس کی اجازت نہیں دیتا، گویا اِس کے سوا کوئی آپشن بھی نہیں تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی ایک ہو جائیں۔

مگر اب حکومت سازی کا مرحلہ طے پا گیا ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے معاہدے سے یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ مرکز میں اکثریت رکھنے والی حکومت بننے جارہی ہے جبکہ دوسری جانب اس وقت ن لیگ کے لیے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس وقت حکومت چلانا قطعی آسان نہیں اس حکومت کے سامنے بہت سے مسائل ہیں۔ جہاں بڑے معاشی چیلنجز ہیں وہاں جو کچھ انتخابات میں ہوا اس کا بھوت بھی دھاندلی کی صورت میں اتنا جلدی پیچھا نہیں چھوڑے گا، ساتھ ہی انہیں فوری فوکس آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور اگلے معاہدے کے حوالے اور شرائط پر مرکوز کرنا پڑے گا۔۔۔

دوسری جانب نئی حکومت کیلئے عوام کو فوری ریلیف دینا بھی آسان نہیں ہوگا، ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے اس مقصد کیلئے اہم معاشی معاملات پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو سر جوڑ کر فیصلوں کی ضرورت ہوگی۔ جبکہ پنجاب اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں تمام نو منتخب اراکین اسمبلی اور مریم نواز نے وزیر اعلی پنجاب کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ مریم نواز کے باقاعدہ سیاسی سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ مریم نواز شریف کے لئے اصل مسئلہ ان کی ناتجربہ کاری ہے۔انہوں نے اب تک کسی انتظامی عہدے پر کام نہیں کیا ۔ بیوروکریسی کو ڈیل کرنے اوروزارتوں کی گھمن گھیری کوسمجھنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ البتہ مریم نواز کو اپنے تجربہ کار والد کی حمایت، رہنمائی اور سرپرستی حاصل ہے۔ وہ والد کے مشورے سے اچھے تجربہ کار بیوروکریٹ صوبے میں لگا سکتی ہیں۔ مرکز میں بھی انہیں سپورٹ کرنے والی حکومت موجود ہے۔ انہیں کئی تجربہ کار ن لیگی اراکین اسمبلی کی خدمات بھی حاصل ہیں جنہیں وزارتوں میں رہنے کا تجربہ بھی ہے۔ اپنی پسند کی ٹیم بنانا مسئلہ نہیں بنے گا۔ مریم نواز شریف کے لئے البتہ اصل چیلنج صوبے میں سیاسی تلخی اور کشیدگی کے ماحول کو کم کرنا ہے۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر اور جارحانہ انداز رکھنے والی احتجاجی لیڈر کا کردار ادا کر چکی ہیں۔ اپنی مخالف جماعت کے قائد عمران خان کے لئے بہت سخت الفاظ استعمال کرتی ہیں۔وزیراعلیٰ کے طور پر البتہ انہیں زیادہ تحمل، برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سیاسی کشیدگی بڑھانا کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی خواہش ہوتی ہے جبکہ اسے کم کرنا اور پرسکون ماحول بنانا حکمران جماعت کا کام اور ذمہ داری ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو اس حوالے سے کشادہ فکری اور کھلے دل کا رویہ اپنانا ہے۔

جبکہ سیاسی قیدیوں اور ناجائز مقدمات کے حوالے سے انہیں نرم پالیسی بنانی چاہیے۔ عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں، البتہ وہاں سے ریلیف پانے والے کسی اپوزیشن رہنما یا کارکن کو کسی نئے ناجائز مقدمے میں مخص سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے نہ گرفتار کیا جائے۔ یہ وہ چیز ہے جو انہیں کام کرنے کے لئے مطلوبہ ماحول فراہم کرے گی۔ وزیراعلیٰ کے طور پر مریم نواز شریف کی گورننس اور کارکردگی بہت اہم ہوگی۔ اگلے الیکشن میں سب سے زیادہ ن لیگ کی صوبے میں پرفارمنس جانچی جائے گی۔ اگر وہ ڈیلیور کر پائیں تو ان کی پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ ان کی ناکامی ن لیگ کو اگلے الیکشن میں بہت شدید نقصان پہنچائے گی۔جو تجزیہ کاراسے ن لیگ کا آخری چانس کہہ رہے ہیں، ان کی بات بے وزن نہیں۔ ہر حال میں ڈیلیور کرنا ہوگا، غلطی کی گنجائش نہیں۔
 
کالم نکار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-