معروف شاعر انورمسعود کیلئے ’’ہلال امتیاز ‘‘کا اعلیٰ سول اعزاز، مداحوں اور سوشل میڈیا صارفین کی زبردست پذیرائی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے معروف شاعر اور ادیب محمد انورمسعود کو جشن آزادی کے موقع پرادب (شاعری) میں نمایاں خدمات سرانجام دینے پر اعلیٰ سول اعزاز ’’ہلال امتیاز ‘‘سے نوازنے کی منظوری دی ہے جسے شعر و ادب سے لگائو رکھنے والے مداحوں نے زبردست سراہاہے اور سوشل میڈیا صارفین نے انور مسعود کو بجا طور پر اس ایوارڈ کا حقدار قرار دیا ہے۔
پروفیسر انور مسعود نہ صرف برصغیر کےایک بڑے مزاحیہ شاعر ہیں بلکہ سنجیدہ پنجابی و اردو ادب میں بھی ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انور مسعود کی پنجابی، اردو اور فارسی تصنیفات میں میلہ اکھیاں دا، ہن کی کریے، قطع کلامی، فارسی ادب کے چند گوشے، شاخِ تبسم، اک دریچہ اک چراغ، بریاب، درپیش، غنچہ پھر لگا کھلنے، بات سے بات، تقریب، میلی میلی دھوپ، انور مسعود کے خطوط صدیقہ کے نام، سیف الملوک از میاں محمد بخش کا اردو ترجمہ، سخن در سخن، پایان سفرنیست، روز بہ روز، اور کلیات انور مسعود قابلِ ذکر ہیں۔
ان کی ایک کتاب “میلہ اکھیاں دا” کے 75 ایڈیشنز چھپ چکے ہیں۔ فیملی ذرائع سے دستیاب تفصیلات کے مطابق انور مسعود گجرات میں پیدا ہوئے اور گجرات پبلک ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کیا۔ اس کے بعد انہوں نے زمیندار کالج گجرات میں پری میڈیکل مضامین کے ساتھ ایف ایس سی کی شروعات کیں۔ تاہم سائنس میں عدم دلچسپی کے باعث انہوں نے آرٹس کو چنا اور ایف اے کا امتحان امتیاز ی نمبرات اور سکالرشپ کے ساتھ پاس کیا۔
بی اے میں فرسٹ کلاس کے نتیجے پر انہیں ‘رول آف آنر ‘ملا۔ گھریلو ذمہ داریوں کے باعث انہوں نے اگلے 2 سالوں کے لیے تعلیم کو خیرباد کہا اور اسلامیہ ہائی اسکول کنجاہ میں بطور اسکول ٹیچرفرائض انجام دینے شروع کئے۔ 1960 ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے اورینٹل کالج میں ایم اے فارسی میں داخلہ لیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا ۔ ایم اے کے فور بعد انہوں نے سرکاری کالجوںمیں بطور لیکچرار پڑھانا شروع کیا اور ڈیرہ غازی خان، بہاولنگر، پنڈی گھیب، گوجر خان، مری اور راولپنڈی کے سرکاری اداروں میں لاتعداد طلباء کو پڑھایا۔
1976 ء میں انورمسعود پاکستان کے 40 لیکچراروں کے ایک سرکاری وفد کے سربراہ تھے جنہوں نے جدید فارسی تعلیم کے کورس کے لیے ایران کا دورہ کیا۔ پنجاب کے محکمہ تعلیم میں اپنی دیرینہ خدمات کے بعد وہ 1996ء میں ریٹائر ہوئے۔انور مسعود نے کم عمری میں ہی شاعری لکھنا شروع کر دی تھی۔ ان کے تخلیق کردہ ادب اور شاعری کی تعلیمی کیریئر کے دوران کچھ اساتذہ نے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے کلام میں نکھار پیدا کرنے میں بھی مدد کی۔
رفتہ رفتہ ان کی شاعری رسالوں اور جریدوں میں چھپنے لگی اور وہ اردو، پنجابی اور فارسی کے منفرد اسلوب والے شاعر کے طور پر جانے جانے لگے۔ وہ اپنی کچھ پنجابی نظموں جیسے ‘انارکلی دی مج’، ‘لسی تے چا’، ‘جہلم دا پل ‘اور ‘اج کی پکائیے’ کی بے پناہ مقبولیت کے بعد ایک گھریلو نام بن گئے کیونکہ یہ نظمیں نہ صرف پنجابی ثقافت کے ساتھ خوبصورتی سے جڑی ہیں بلکہ اعلیٰ ذوق کا مزاح اور تفریح بھی فراہم کرتی ہیں۔
ان کی ظریفانہ پنجابی نظموں اور فلسفیانہ اردو اور فارسی غزلوں کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ۔ انور مسعود کی شخصیت اور شاعری پر ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے متعدد مقالے لکھے جا چکے ہیں۔انہوں نے امریکہ، برطانیہ، ہندوستان، سویڈن، یونان، ڈنمارک، اٹلی، ناروے، سپین، قطر، سعودی عرب، دبئی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فرانس ہانگ کانگ، عمان اور دیگر کئی ممالک میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی اور خوب داد سمیٹی۔
اپنے علمی اور پیشہ وارانہ کیریئر کے دوران انور مسعود نے ادب اور تعلیم کے لئے نمایاں خدمات سرانجام دیں جن کے اعتراف میں انہیں متعدد اعزازی ایوارڈز پیش کئے گئے۔ ان میں سے چیدہ چیدہ اعزازات میں تمغہ حسنِ کارکردگی، رائٹرز گلڈ ایوارڈ، ہجرہ ایوارڈ ، نشانِ گجرات، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ برائے عصر لکھنوی اردو انٹرنیشنل ایوارڈز ، امریکہ، اور فخرِ پنجاب ایوارڈشامل ہیں۔