صدقہ فطراور مستحقین

آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرمادیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بے شک آپ کی دعا ان کے لیے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘

اللہ پاک نے ہمیں حضرت محمدﷺ نبی دے کرہماری زندگی پر بہت بڑا احسان کیا ہے کیونکہ انکی تعلیمات کی بدولت ہم سمجھ سکے ہیں کہ غریب وغربا ء کے حقو ق بھی ہیں ورنہ آج کے اس افراتفری کے دور میں ہر کسی کو اپنی پڑی ہوتی مگر ہمارے پیر نبی حضرت محمدﷺ نے تنگدست اور دکھی انسانوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کی تلقین کی اسی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے پرصدقہ واجب کردیا تاکہ صدقہ کے بدولت جو لوگ خوشی نہیں منا پاتے وہ بھی خوشی میں شریک ہوسکیں حضرت محمدمصطفٰے ﷺ نے غنی اور فقیر کی جانب سے صدقہ فطرادا کرنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا ترجمہ:اب رہا تم میں مال دار غنی شخص اس سے اللہ پاک تمہارے مال کو پاک کردیتا ہے اور تم میں سے جو جتنا صدقہ کرے گا اللہ تعالٰی اسے سے زیادہ عطا کرے گا (مسندامام احمد)حضورنبی کریم ﷺ نے ہر چھوٹے بڑے مردوعورت پر صدقہ فطر کا حکم فرمایا ور اس کی ادائیگی نماز عید سے پہلے کی گئی ہے تاکہ جسے صدقہ دیا جائے وہ بھی خوشیوں میں شامل ہوسکے اسی حوالے سے سنن دارقطنی میں حدیث مبارکہ ہے کہ حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس راضی اللہ عنہا ماہ رمضان کے آخری جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم میں سے کون کون اہل مدینہ سے ہے؟اٹھو اور اپنے سب بھائیوں کو سیکھاؤ کیونکہ انکو نہیں پتا کہ رسول پاک ﷺ نے آزادوغلام مروعورت پر آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور مقررفرمایا حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا جب اللہ تمہیں استطاعت،وسعت فراخی عطا فرمائے تو گہیوں ایک صاع دے دو اسی لیے بہترہے ان چارچیزوں سے صدقہ فطردینا چاہیے۔باقی صدقۂ فطر کی مقدار گندم کے اعتبار سے پونے دو کلو گندم یا پونے دو کلو گندم کی مارکیٹ کی قیمت ہے ، احتیاطاً دو کلو گندم یا اس کی قیمت کا حساب کرلیا جائے۔ اور جو، کھجور اور کشمش کے اعتبار سے یہی اشیاء ساڑھے تین کلو یا ان کے ساڑھے تین کلو کی بازار میں جو قیمت ہے، وہ صدقہ فطر کی مقدار ہے۔اپنے علاقے میں ان چیزوں کی قیمت پتہ کرکے احتیاط” زیادہصدقہفطرادا کردیں۔ اگر بات کریں کہ کس صدقہ دینا واجب ہے تو علمائے کرام یوں فرماتے ہیں کہ جو مسلمان اتنا مال دار ہے کہ اس پر زکاۃ واجب ہے یا اس پر زکاۃ واجب نہیں، لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر عیدالفطر کے دن صدقہ دینا واجب ہے، چاہے وہ تجارت کا مال ہو یا تجارت کا مال نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو صدقۂ فطر کہتے ہیں۔

جس طرح مال دار ہونے کی صورت میں مردوں پر صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اسی طرح اگر عورت مال دار صاحب نصاب ہے یا اس کی ملکیت میں قرضہ اور ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال وغیرہ ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، مثلاً اس کے پاس زیور ہے جو والدین کی طرف سے ملا ہے یا شوہر نے نصاب کے برابر زیور عورت کو بطور ملکیت دیا ہے، یا مہر میں اتنا زیور ملا جو نصاب کے برابر ہے تو عورت کو بھی اپنی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے، ہاں اگرشوہر اس کی طرف سے اسے بتاکر ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔

مال دار عورت پر اپنا صدقۂ فطر ادا کرنا تو واجب ہے، لیکن اس پر کسی اور کی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں، نہ بچوں کی طرف سے نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ شوہر کی طرف سے۔

البتہ مال دار آدمی کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ان کی اجازت سے ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔
2۔ صدقہ فطر کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے، اور صدقہ فطر اور زکاۃ کے مستحق وہ افراد ہیں جو نہ بنی ہاشم (سید وں یا عباسیوں وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب (ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت) تک پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات اور صدقہ فطر دیاجاسکتا ہے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-