اسلام آباد (نیوز ڈیسک) زندگی کے تجربات اور خیالات کو الفاظ کا روپ دینے والے نامور ادیب قدرت اللہ شہاب کو دنیا سے رخصت ہوئے 37 برس بیت گئے، ان کی تحاریر آج بھی پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔
دل کو چھولینے والا انداز تحریر رکھنے والے نامور ادیب قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم انہوں نے ریاست جموں و کشمیر اور موضع چمکور صاحب ضلع انبالہ میں حاصل کی، 1941ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔
قدرت اللہ شہاب نے زندگی کے تجربات اور خیالات کو الفاظ کا روپ دیا تو شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے، انہوں نے عمدہ نثر نگار اور ادیب کے طور پر غیر معمولی شہرت پائی اور ان کی تحریریں قارئین کے ذہنوں پر نقش ہو جاتی ہیں، ان کی آپ بیتی شہاب نامہ اردو ادب میں مثالی مقام رکھتی ہے۔
پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل انہی کی مساعی سے عمل میں آئی، قدرت اللہ شہاب کی دوسری تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ نمایاں ہیں، ان کی تحریریں آج بھی پڑھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔
قدرت اللہ شہاب قیام پاکستان کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے، گورنر جنرل پاکستان غلام محمد، سکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے سیکرٹری کے طور پر بھی ذمہ داری نبھائی۔
ادب کے اس روشن چمکتے ستارے کو پاکستانی حکومت نے ستارہ قائداعظم اور ستارہ پاکستان سے بھی نوازا۔ قدرت اللہ شہاب 24 جولائی 1986 کو اسلام آباد میں وفات پا گئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔