انور خان …….سی ڈی اے ڈائریکٹر اسٹیٹ…… !

صحافتی ڈیوٹی ہویا کوئی کام اکثر سرکاری دفتروں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔اور پھر وہی روایتی انداز جو ایک کالونی میں انگریز وں کا ہوتا تھا وہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ آج کسی کام کے سلسلے میں سی ڈی اے انور خان ڈائریکٹر ۱۱ کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا ، جیسے ہی میں نے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا موصوف جو فائلوں میں محو تھے اٹھے اور مجھے بڑے پرتپاک طریقے سے ملے چہرہ ہشاش بشاش اور مسکراہٹ سے لبریز ، اس طرع اپنی سیٹ سے اٹھ کر ملنا اور پھر اس انداز سے ملنا جیسے ایک مہذب معاشرے میں ایک سرکاری آفیسرعام پبلک سے ملتا ہے نے مجھے حیرت زدہ کر دیا ۔ ان کے اس رویے سے متاثر ہو کر میں نے ان سے پوچھ ہی لیا آپ کا رویہ دوسرے سرکاری آفیسروں سے مختلف کیوں ہے تو انہوں نے اپنی خاندانی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ میرا ایک بھائی ڈاکٹر ہے جبکہ دسرا بھائی بھی خوشحال ہے ، ہم نے ٹاٹوں پر بیٹھ کر عام سے سکول میں تعلیم حاصل کی ہے ماں باپ دونوں غیر تعلیم یافتہ تھے اور اپنے دور کے لحاظ سے انہوں نے ہم سب بھائیوں کی اچھی تربیت کی، ان کا کہنا تھا کہ اگر میں آج اس سیٹ پر ہوں تو ماں باپ کی دعائیں اور خدمت خلق کا نتیجہ ہے ، میں ایک سرکاری آفیسر ہوں اور سرکار نے جو ڈیوٹی مجھے سونپی ہے اگر میں اس کو دیانت داری سے ادا نہیں کرتا تو پھر مجھے اس سیٹ پر بیٹھنے کا کوئی حق حاصل نہیں، ہر ائل اپنا قیمتی وقت نکال کر اپنے کام کے لئے آتا ہے اور میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس سائل کا اسی وقت کام کر دیتا ہوں ، انسانوں کی خدمت میرا مقصد حیات ہے ۔انہوں نے ایک بٹن دبایا اور ان کا آفس بوائے حاضر ہو گیا میرے لئے اپنی پاکٹ سے چائے کا آرڈر دیا میں لاکھ منع کرتا رہا لیکن میری انہوں نے ایک نہ سنی اتنی دیر میں چائے آ گئی اس دوران کئی دوسرے سائل بھی آتے رہے اور ساتھ ساتھ ان کا کام بھی ہوتا رہا اور ساتھ ساتھ میں انکی سرکاری ڈیوٹی کے بارے میں سوال بھی کرتا رہا ان کے منہ سے میرے دل کی بات نکل گئی کہ جب تک کسی سرکاری ادارے کا سربراہ دیانت ار نہیں ہو گا اس کے ماتحت کام کرنے والا عملہ کرپشن سے باز نہیں آئے گا اور جب سے میں اس سیٹ پر بیٹھا ہوں اب تک اپنے ماتحت کام کرنے والے 5اہکاروں کو محطل کر چکا ہوںیہ نظام آہستہ آہستہ تبدیل ہو گا 40سے بگڑے معاشرہ کو ایک دن میں تبدیل کرنا مشکل ہے لیکن میں نے تہیہ کیا ہوا ہے جو بھی سرکاری اہلکار ہڈ حرام ہو گا اسے کسی بھی سرکاری محکمہ میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیںاور میں اسے نوکری سے فارغ کر کے ہی چھوڑوں گا۔ ان کی ایک بات پر میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا کہ ایک دن میرے پاس پنجاب کے ایک سینئیر وزیر کے ریفرنس سے ایک بندہ آیا اور مجھ سے کسی غیر ضروری کام کے لئے کہا موصوف کہنے لگے میں نے ان سے کہا کہ آپ جس کا ریفرنس دے رہے ہیں وہ خو اپنے کام کے لئے ریفرنس ڈحونڈتے ہیں اور پھر بھی ان کا میرٹ سے ہٹ کر کام نہیں ہوتا میں کیسے آپ کا کام میرٹ سے ہت کر کر دوںان کی اس بات نے میرے دل پر اتنا اثر ڈالا کہ(تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے)بعد میں انہوں نے میرے آنے کا مقصد دریافت کیا میرے ساتھ میرے ماتحت کام کرنے والا ایک کارکن تھا جس کے کام کے لیئے میں سی ڈی اے گیا تھا اس کارکن کی انہیں ثبوتوں کے ساتھ کام کا بتایا جب انہوں نے ثبوت دیکھے تو بڑے افسردہ ہوئے اور اپنے آفس بوائے کو فوری متعلقہ ڈیپارٹمنٹ میں بھیجا فائل منگوائی اور ایک منٹ میں کام کر دیا ان کی دیانت داری کو دیکھتے ہوئے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لے کر آفس سے باہر نکل آئے ۔واپسی پر میں سارے راستے سوچتا رہا کاش ہمارے تمام سرکاری آفیسر اگر انور خان کی طرع کام کرنا شروع کر دیں تو ملک سالوں میں نہیں مہینوں میں ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہو سکتا ہے اور مجھے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی بات یاد آ گئی 30سالوں سے جس معاشرے کو بگاڑ دیا گیا ہو وہ دنوں میں ٹھیک نہیں ہو سکتا اور اب واقعی دیکھنے کو مل رہا ہے اکثر سرکاری آفیسر اپنی ڈیوٹی ایمان داری سے ادا کر رہے ہیں۔اور سارا کریڈٹ وزیر اعظم پاکستان جناب عمرن خان کو جاتا ہے ۔اللہ پاک ارض وطن کو ایسے قابل سپوتوں سے مالا مال اور زرخیز کرے تاکہ وطن کی اس زمین کی بہترین فصل گل تیار ہو اور نئی نسل کی آبیاری بہترین ہوسکے….آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں