بلڈ پریشر جان لیوا ہو سکتا ہے، اسے قابو میں رکھیں

--- فائل فوٹو
— فائل فوٹو

بلڈ پریشر جسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، اس کے سبب خون کی شریانوں، دل، دماغ، گردوں اور آنکھوں سمیت جسم کے دیگر اعضاء پر دباؤ بڑھتا ہے۔

مسلسل ہائی بلڈ پریشر کا شکار رہنے سے جان لیوا امراض جیسے دل کی بیماریوں، ہارٹ اٹیک، فالج، دماغی تنزلی اور گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر یعنی خون کا دباؤ ہماری شریانوں کو سکیڑتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اس وقت ہوتا ہے جب جسم زیادہ حرکت یا جدوجہد کر رہا ہوتا ہے، یعنی اسے زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہونے کی صورت میں دل کے لیے کام کرنا زیادہ مشکل اور محنت طلب ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ کمزور ہو جاتا ہے، اس کا نتیجہ دل کے مختلف امراض یا ہارٹ اٹیک کی شکل میں نکلتا ہے جبکہ خون کی شریانیں بھی سکڑنا یا اکڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔

زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے شکار اکثر افراد کو اس کی موجودگی کا علم ہی نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، یہ کسی بھی عمر کے افراد کو اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔

زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ عمر کی تیسری دہائی سے ہی بلڈ پریشر کے چیک اپ کو معمول بنا لیا جائے۔

دراصل ہائی بلڈ پریشر کی کوئی علامت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پتہ نہیں چل پاتا، اس کا ادراک اس وقت ہوتا ہے جب صحت کو نقصان پہنچنا شروع ہوتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں، جو درج ذیل میں بتائی گئی ہیں، ان پر عمل کر کے بلڈ پریشر کو کم یا نارمل رکھا جا سکتا ہے۔

چہل قدمی اور ورزش کریں

بلڈ پریشر کا لیول کم رکھنے کے لیے ورزش سب سے بہترین چیز ہے، باقاعدگی سے ورزش کرنے سے دل مضبوط ہوتا ہے اور خون کو بہتر انداز میں پمپ کرنے لگتا ہے، اس سے شریانوں میں خون کا دباؤ بھی کم ہونے لگتا ہے۔

ہر ہفتے 150 منٹ کی معتدل ورزش یا چہل قدمی کرنا یا 75 منٹ تک دوڑنا، بلڈ پریشر کو نارمل اور دل کی صحت کو بہتر کرتا ہے۔

نمک کا استعمال کم کریں

پروسیسڈ یا پہلے سے تیار شدہ غذاؤں کی وجہ سے دنیا بھر میں نمک کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔

بہت سے مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اور سوڈیئم یعنی نمک کا گہر اتعلق ہے، لہٰذا نمک کا استعمال کم کریں، ساتھ ہی پروسیسڈ غذاؤں کی جگہ تازہ غذاؤں اور نمک کی جگہ ہرب اور مسالوں کے استعمال سے بھی افاقہ ہو گا۔

پوٹاشیئم والی غذائوں کا استعمال کریں

پوٹاشیئم ایک اہم منرل ہے جو جسم میں سوڈیئم یعنی نمک کو زائل کرتا ہے اور شریانوں میں خون کے دباؤ کو سہل بناتا ہے۔

آج کے دور کی پروسیسڈ غذاؤں نے نمک کے استعمال کو زیادہ اور پوٹاشیئم کے استعما ل کو کم کر دیا ہے۔

ان دونوں کو بیلنس رکھنے کے لیے اپنی ڈائٹ میں پوٹاشیئم والی غذاؤں کا استعمال بڑھانا چاہیے۔

وزن میں کمی لائیں

موٹا پا کئی بیماریوں کی وجہ بن جاتا ہے، جن میں سے ایک ہائی بلڈ پریشر بھی ہے۔

وزن میں ہر ایک کلو گرام کی کمی سے بلڈ پریشر کی سطح نیچے لانے میں مدد مل سکتی ہے، اس کے لیے چکنائی والی غذاؤں سے پرہیز کرنا اور چکن، مچھلی، تازہ پھل، سبزیوں اور ریشے دار غذاؤں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے۔

ذہنی تناؤ سے بچیں

بلڈ پریشر میں اضافے کی ایک وجہ اسٹریس بھی ہے، اگر آپ دائمی اسٹریس میں مبتلا ہیں تو ا س کا مطلب ہے کہ آپ دیگر عادات جیسے سگریٹ نوشی یا غیر صحت بخش غذائیں کھانے میں بھی مبتلا ہیں۔

ان چیزوں سے دوری اور اسٹریس پر قابو پانے سے آپ اپنے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔

if($('.apester-media').length > 0) { var scriptElement=document.createElement('script'); scriptElement.type="text/javascript"; scriptElement.setAttribute="async"; scriptElement.src="https://static.apester.com/js/sdk/latest/apester-sdk.js"; document.body.appendChild(scriptElement); }

if($('.twitter-tweet').length > 0) { var tweetObj = document.getElementsByClassName('tweetPost'); var counter_tweet = 0; if (tweetObj.length == 0) { tweetObj = document.getElementsByClassName('twitter-tweet'); $.each(tweetObj, function (i, v) { $(this).attr('id', 'twitter-post-widget-' + i); }); } else { $.each(tweetObj, function (i, v) {

if($(this).find('.twitter-tweet').length > 0){ $(this).find('.twitter-tweet').attr('id', 'twitter-post-widget-' + counter_tweet); counter_tweet++; } }); } $.getScript('https://platform.twitter.com/widgets.js', function () { var k = 0; var tweet = document.getElementById('twitter-post-widget-' + k); var tweetParent, tweetID;

while (tweet) { tweetParent = tweet.parentNode; //tweetID = tweet.dataset.tweetId; tweetID = tweetParent.getAttribute("id"); if(tweetID === null){ tweetID = tweet.dataset.tweetId; } //var tweetVideoClass = tweet.getAttribute('class').split(' ')[0]; $(tweet).remove();

twttr.widgets.createTweet( tweetID, tweetParent ); k++; tweet = document.getElementById('twitter-post-widget-' + k); } }); /*==============*/ var tweetObjVid = document.getElementsByClassName('tweetVideo'); var counter_tweet = 0; if (tweetObjVid.length == 0) {

tweetObjVid = document.getElementsByClassName('twitter-video'); $.each(tweetObjVid, function (i, v) { $(this).attr('id', 'twitter-vid-widget-' + i); });

} else {

$.each(tweetObjVid, function (i, v) { if($(this).find('.twitter-video').length > 0){ $(this).find('.twitter-tweet').attr('id', 'twitter-vid-widget-' + counter_tweet); counter_tweet++; } });

} $.getScript('//platform.twitter.com/widgets.js', function () { var v = 0; var tweetVid = document.getElementById('twitter-vid-widget-' + v); var tweetParentVid, tweetIDVid; while (tweetVid) { tweetParentVid = tweetVid.parentNode; //tweetIDVid = tweetVid.dataset.tweetId; tweetIDVid = tweetParentVid.getAttribute("id"); if(tweetIDVid === null){ tweetIDVid = tweet.dataset.tweetId; } $(tweetVid).remove(); twttr.widgets.createVideo( tweetIDVid, tweetParentVid ); v++; tweetVid = document.getElementById('twitter-vid-widget-' + v); } }); }

if($('.instagram-media').length > 0){ var scriptElement=document.createElement('script'); scriptElement.type="text/javascript"; scriptElement.setAttribute="async"; scriptElement.src="https://www.instagram.com/embed.js"; document.body.appendChild(scriptElement); }

if($('.tiktok-embed').length > 0){ var scriptElement=document.createElement('script'); scriptElement.type="text/javascript"; scriptElement.setAttribute="async"; scriptElement.src="https://www.tiktok.com/embed.js"; document.body.appendChild(scriptElement); }

if($('.fb-video').length > 0 || $('.fb-post').length > 0){ var container_width = $(window).width();

if(container_width < 500){ if($('.fb-video').length > 0){ let embed_url = $('.fb-video').attr('data-href'); let htmla="

'; $('.fb-video').parent('.embed_external_url').html(htmla); } else{ let embed_url = $('.fb-video').attr('data-href'); let htmla="

'; } }

var scriptElement=document.createElement('script'); scriptElement.type="text/javascript"; scriptElement.setAttribute="async"; scriptElement.src="https://connect.facebook.net/en_US/sdk.js#xfbml=1&version=v2.11&appId=580305968816694"; document.body.appendChild(scriptElement); } } },100); var story_embed_gallery = $('.detail_gallery').find('.embedgallery').length; if(story_embed_gallery > 0){ var styleElement=document.createElement('link'); styleElement.type="text/css"; styleElement.rel="stylesheet"; styleElement.href="https://jang.com.pk/assets/front/css/swiper-bundle.min.css"; document.head.appendChild(styleElement);

var styleElement=document.createElement('link'); styleElement.type="text/css"; styleElement.rel="stylesheet"; styleElement.href="https://jang.com.pk/assets/front/css/colorbox.css"; document.head.appendChild(styleElement); } if($("#theNewsWidget").length > 0){ /*$("#theNewsWidget").load("https://www.thenews.com.pk/get_entertainment_news_widget");*/ //$("#theNewsWidget").load("https://gadinsider.com/latest-posts/mobile-news"); //$("#theNewsWidget").load("https://jang.com.pk/jang_english_news"); /*$.ajax({ url : "https://jang.com.pk/assets/uploads/gadinsider/posts.txt", dataType: "text", cache: false, success : function (data) { $("#theNewsWidget").html(data) //console.log(data) } });*/ }

کیٹاگری میں : صحت