قبضہ مافیا کا راج

سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے۔جس طرح کراچی میں چوروں، ڈاکوؤں کا راج سے بالکل اسی طرح پورے ملک میں لینڈ مافیا زمینوں کی لوٹ مار میں بے خوف مصروف ہے پھر اس کا کوئی تدارک ہماری حکومت کے پاس موجود نہیں ہے وہ اس سلسلے میں برسوں سے مجبور اور لاچار ہے مگر عوام تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں یوں ہی خاموش اور تماشائی نہیں بنی ہوئی ہے بلکہ اس میں ضرور کوئی ملی بھگت ہے۔جوکہ کافی حد تک سچ بھی ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت کا کام خدمت خلق کر کے عوام کے مسائل کم کرنا ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔
دنیا بھر کے دیگر ممالک میں اتنی اندھیر نگری نہیں ہوتی، وہاں پر لوٹ مار ، کرپشن،  اقربا پروری دور تک نظر نہیں آتی، کرپشن کرنے والوں کو کڑی سزائیں ملتی ہیں، بسا اوقات انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، مگر پاکستان میں احتساب کی بات کی جائے، قبضہ مافیا سے زمین واگزار کروانے کی کوشش کی جائے تو سیاسی انتقام کے نعرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ہم ‘انتظامی آمریت‘ کے حامل نوآبادیاتی نظام سے تو نکل آئے‘ مگر آج ‘انتظامی تباہی‘ کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔

پاکستان میں کہیں بھی خالی گھر ہو،مکان ہو، پلاٹ ہو یا عمارت ہو قبضہ مافیا ناجائز کے نشانے پر اور اس ہر دھاوا بول دیا جاتا ہے کیونکہ اس پر منافع کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جعلی سٹامپ پیپر اور رجسڑی سے لےکر مقامی تھانے سب ملی بھگت سے یہ دہندہ زورشور سے سرگرم ہے جبکہ اس کا سب سے اہم نشانہ کمزور افراد ہوتے ہیں جو تھانے،کچہری کے چکر پر چکر لگا لگا کر آخر تنگ آکر کچھ رقم ان سے لے کر کوڑیوں کے بھاؤ جائیداد قبضہ مافیا کو بیچ دیتا ہے۔
اور اگر زمین سرکاری ہے تو اس میں حلقے کے ایم پی اے یا ایم این اے کی سر پرسرستی حاصل کی جاتی ہے حصہ طے ہونے کے بعد زمین ہتھیا لی جاتی ہے مگر زیادہ تر ہاتھ عام آدمی کی املاک پر صاف کئے جاتے ہیں۔ ویسے تو پورے ملک میں جہاں دیکھوں اندھیری نگری چوپٹ راج ہے مگر یہاں آج ہم ایک بار پھرقبضہ مافیا اور تجاوزات کے حوالے سے میں حکومت   کی توجہ اسلام آباد اور راولپنڈی شہر کی طرف مبذال کروائے گے۔ گرداورمحکمہ مال مجبور انتظامیہ بے بس، تحصیلدار کے فیصلہ کو گرداور نے ہوا میں اڑا دیا جبکہ پلاٹ کے مالک کی جانب سے چیف کمشنر  کو معاملہ کا فوری نوٹس لے کر پلاٹ کا قبضہ واہگذار کروائیں، موضع پھلگراں میں ایک پلاٹ تعدادی 13مرلہ خریدا گیا اور مالک پلاٹ نے باقائدہ نشان دہی کر کے پلاٹ کو مشتری کے حوالے کیا جو کہ مری ایکپرس وے پر واقع تھا پلاٹ کے تمام قانونی کاغذات بھی مکمل تھے اور سرکاری فیس بھی جمع کروائی گئی بعد ازاں مالک جب پلاٹ پر گیا تو ایک دیگر شخص نے اسی جگہ کا کلیم کیا مالک نے اے ڈی سی آر اسلام آباد کو پلاٹ کے قبضہ کے درخواست گذاری انہوں نے مالک پلاٹ کو مشورہ دیا کہ آپ تغحصیلدار کی عدالت میں تقصیم کا دعویٰ دائیر کریں دعویٰ بھی دائیر کیا گیا اور فصیلہ مالک کے حق میں آ گیا ، بعد ازاں تحصیلدار اسلام آباد نے گرداور کو روپکار بھیجی لیکن دو سال گذرنے کے باوجود گرداورپلاٹ کا قبضہ نہ دلوا سکا اور اے ڈی سی آ ر کو مس گائیڈ کرتا رہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ متعلقہ گرداور قبضہ مافیا سے ملا ہوا ہے مالک نے چیف کمشنر اسلام آباد سے درخواست کی ہے کہ وہ پلاٹ کا قبضہ واہگذار کروا کر میرے ھوالے کریں اس میں جو بی محکمہ مال کا کارندہ قبضہ مافیا کے ساتھ شامل ہے اسے کڑی سے کڑی سزا دے کر نشان عبرت بنائیں۔

یہ ہی نہیں بلکہ یہاں محکمہ مال نے پنجاب ہا ئیکورٹ کا آرڈر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ محکمہ مال کے پٹواریوں نے پنجاب ہائیکورٹ کی حکم عدولی کرتے ہوئے کئی منشی رکھے ہیں جو کہ پٹواریوں کے فرنٹ مین کے طور پر کام کر رہے ہیں اور لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہیں یا ہائی کورٹ نے ریونیو اور اینٹی کرپشن کو واضح حکم دیا تھا کہ کوئی پٹواری منشی نہیں رکھ سکتا اور سرکاری جگہ پر اپنا دفتر بنائے گا اور اس کے علاوہ ڈی جی اینٹی کرپشن کو سخت ارڈر تھے کہ کوئی پٹواری اس پر عمل نہ کرے تو اس کے خلاف ایف ائی ار کاٹ کر اس کے خلاف مقدمہ ہوگا لیکن اس کے برعکس ایسا کچھ نہ ہوا اور اج بھی عوام منشیوں کا رحم و کرم پر ہیں جبکہ مقام انتظامیہ نے بھی انکھیں بند کر رکھی ہیں عوام نے پنجاب ہائی کورٹ سے اپنے حکم پر عمل درامد کروانے پر زور دیا ہے عوام کا کہنا ہے کہ ایسے کرپٹ پٹواریوں کے خلاف توہین عدالت لگا کر انہیں کیفی کردار تک پہنچایا جائے اور ریکارڈ میں جو ہیرا پھیری کی گئی ہے اسے درست کرایا جائے۔یہاں صرف یہی نہیں بلکہ ایسے ہزاروں مقدمات روزانہ کی بنیادوں پر موجود ہیں  مگر ان میں سے چند ہی شہ سرخیوں جگہ مل  پاتی ہے۔ عام آدمی رشوت ،سفارش اور غربت کی چکی میں پس رہا ہے پولیس بھی سیاست زدہ ، سول اور فوجی ادوار میں حکومتوں نے جہاں دیگر ریاستی اداروں کو تباہ کر دیا وہاں پولیس اور محکمہ پولیس اور محکمہ مال بدترین حالات کا شکار ہوئے عام شہری آج بھی محکمانہ سیاست اور جبر کا مسلسل شکار بن رہیں ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

بلاشبہ پاکستان میں شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان قوانین پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے ریاست اور عدلیہ کی جانب سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی آج بھی ضرورت ہے۔ ریاستی قوانین پر عملدرآمد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے تحت ملک میں عام شہری کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-