قومی شخصیت اور لسانی تعصب

بحثیت قوم ہم قیام ِ پاکستان کے بعد سے ہی مختلف فرقوں اور سب قوموں میں بٹے ہوٸے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ اسی فرقہ واریت ،مذہبی و لسانی منافرت ،اور تعثب کی وجہ سے لاکھوں بہن بھاٸیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کا شکار ہمارے زیادہ تر کم پڑھے لکھے اور کم شعور رکھنے والے بہن بھائی بنے یعنی مرنے والے عموماً او اور مارنے والے خصوصاً ، دونوں تعلیمی،شعوری اور معاشرتی لحاظ سے پست طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور ہم جو کچھ پڑھے لکھے ہیں اپنے اپ کو ان سے علیحدہ تصور کرتے تھے اور اس کا ذکر فخریہ انداز میں کرتے تھے۔ کہ ہم میں نہ تو مذہبی منافرت ہے اور نہ ہی لسانی منافرت لیکن یہ نھرم بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ ہوا یوں کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر مسلسل شیئر ہوتی رہی۔ اس تصویر کو ملنے والے کمنٹس پڑھ کر ہمیں اپنی لسانی منافرت اور تعصب کی بو واضح نظر اتی ہے۔ وہ تصویر سرائیکی وسیب کے ایک نامور شاعر جناب شاکر شجاع ابادی کی تھی محمد شفیع المعروف شاکر شجاع ابادی کو ان کی با مقصد اور با مفہوم شاعری کی وجہ سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی طرف سے انہیں انکی خدمات کے اعتراف میں اعزازی پی ایچ ڈی کی ڈگری دی اور تصویر میں ان کو وہ ڈگری وصول کرتے دکھایا گیا ہے۔
محمد شفیع المعروف شاکر شجاع آبادی سراٸیکی وسیب کی پہچان اور دورِ حاضر کے سب سے عظیم سراٸیکی شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے ناصرف دنیا کو اپنا گرویدہ بنایا بلکہ قومی شعور اجاگر کیا۔ اگر پڑھنے والہ توجہ اور خلوص سے پڑھے تو انکی شاعری تھوڑی بہت بھی سراٸیکی سمجھنے والے کے دل میں گھر کر لیتی ہے ۔ان کی شاعری بھی اتنی ہی میٹھی ہے جتنی میٹھی ویسب سراٸیکی کی زبان ہے۔ شاکر شجاع عبادی اپنی نوعیت کے واحد شاعر ہیں جو مفکر بھی ہیں ادیب بھی ۔
ان کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے اعزازی PHD ڈگری سے نوازا ہے۔اس سے پہلے 2017 میں انہیں صدارت ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
سرائکی شاعری کی مدد سے مظلوم کی مدد ،قوم و وطن کی محبت اور معاشرے میں انصاف کے پیغام اور بامقصد شاعری ہی وہ خدمات ہیں ۔ اور اعزای ڈگری ان کی خدمات کا صلہ ہے جو ان کی زندگی میں ہی انہیں دیا گیا ۔ حالانکہ ہمارا ریکارڈ ہے کہ جب تک کوٸی مر نہ جاٸے، ہمیں انکی خدمات و قربانیوں کا علم ہی نہیں ہوتا۔ جب وہ دنیا چھوڑ جاٸے تو اسکے بعد ہمیں اسکی اہمیت معلوم ہوتی ہے،لیکن شکر ہے کسی کو تو اسکی زندگی میں ہی اسکی حیثیت سے آگاہ کردیاگیا۔ شاکر شجاع آبادی صاحب جسمانی لحاظ سے انفٹ ہیں،کٸی بیماریوں کا سامنا کررہے ہیں۔ شاکر صاحب اتنے لاچار ہیں کی شاعری کے الفاظ اپنے ایک عزیز نوجوان کی زبانی سمجھاتے ہیں۔ خود نہ لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہموار انداز میں شاعری بیان کرسکتے ہیں ۔لیکن ان سب وجوہات کے باوجود اپنے ملک و قوم کی محبت اور ملک و قوم کو درپیش مساٸیل اور ملک و قوم میں رچی بسی وجوہات جنکی وجہ سے ملک انتشار کا شکار ہے،ترقی کی راہ سے ہٹ گیا ہے۔کو اپنے خوبصورت اور سوہݨے انداز بیان کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
انکا خوبصورت پیغام لسانی تعصب سے ہٹ کر پڑھیں۔

میکوں میݙا ݙکھ، میکوں تیݙ ݙکھ
میکوں ہر مظلوم انسان دا ݙکھ
جتھاں ظلم دی بھا پئ ٻلدی ہے
میکوں روہی چولستان دا ݙکھ
جتھاں کوئی انصاف دا ناں کۓ نئیں
میکوں پورے پاکستان دا ݙکھ
جہڑے مر ڳئے ہن او مر ڳئے ہن
میکوں جیندے قبرستان دا ݙکھ
XXXXXXXXXXX
میݙی عاجزی دے جذبات نہ پُچھ
ہوندی تلخی دے کلمات نہ پُچھ
باقی ہر ڳل پُچھ، ٻیلی خوش ہو کے
پر ہک اجڑن دے حالات نہ پُچھ
کیویں کوئی آیا، کیویں چھوڑ گیا
کیویں ھوئی آخری ملاقات ، نہ پُچھ
توں شاکر آپ سیاݨڑاں ایں
میݙا چہرہ پڑھ حالات نہ پُچھ
xxxxx
سدا ہنجواں دی تسبیح کوں،
پھریندیں شام تھی ویندی
انھاں دے ٻال ساری رات روندہن
بکھ توں سمدے نئیں
جنھاں دے کہیں دے ٻالیں کوں
کھںڈیندے شام تھی ویندی
غریباں دی دعا یارب پتہ نیں کن کریندا ھیں
پلا خالی خیالیں دے پکیندیں شام تھی ویندی
میݙا مالک رعایت کر,نمازاں رات دیاں کر ݙے
جو, روٹی شام دی پوری کریندیں، شام تھی ویندی
xxxx
میں شاکر وقت دا ماریا ھاں
مگر حاطم توں گھٹ کائنی۔
میݙا حال ثبوت ہے اڄݨن دا
آغاز وی میں، انجام وی میں.
بندے جاݨدے ہن پہچاݨدے نئیں
مشہور وی میں، گمنام وی میں
اوہ نئیں ملیا، مت مل گئ ہے
کامیاب وی میں ، ناکام وی میں
میݙے شاکر,گناہ ہن گردن تائیں
معصوم وی میں ، بدنام وی میں
XXXXXX
ونڄ قاصد میݙے یار کوں آکھیں
تیݙا سانول سخت بیمار اے
ایݙی اوکھی یار شفا کوئی نئیں
تیݙے ہک دیدار دی مار اے

شاکر صاحب کی پنجابی زبان میں انمول شاعری

میرا آکھا مَن لے پُترا،
ھَر گل پَلےبَنھ لے پُترا
موڑاں والی راہ نئیں چَنگی
نِت بیگانی چاہ نئیں چَنگی
اَصلوں ھولا دِل نئیں چَنگا
بہتا وڈا تِل نئیں چَنگا
بوھتی کِھلری وَل نئیں چَنگی
کَنڈوں اوھلے گل نئیں چَنگی
تِڑھ کے ماری چھال نئیں چَنگی
بوھتی لَمی کال نئیں چَنگی
‏رُکھاں تَھلے مَچ نئیں چَنگا
ڈھیر فَسادی سَچ نئیں چَنگا
کَکھاں نیڑے اَگ نئیں چَنگی
سِرتوں بھاری پَگ نئیں چَنگی
بے قدرے دی کھوہ نئیں چَنگی
بَدو بَدِی دی موہ نئیں چَنگی
اِس توں پچھے ھور نُوں پَھڑئیے
پہلاں گھر دے چور نُوں پَھڑئیے
کرنی اَنت اَخیرنئیں چَنگی
‏کُتیاں اگے کِھیر نئیں چَنگی
لَڑ کے کِیتی وَنڈ نئیں چَنگی
لُون دے نیڑے کھنڈ نئیں چَنگی
َمَنگویں سوچ تےچُک نئیں چَنگی
سَٹ کے چٹنی تُھک نئیں چَنگی
کچی پِلی رُت نئیں چَنگی
سب نُوں دِسدِی گُت نئیں چَنگی
اَکھاں دے وِچ قہر نئیں چَنگا
جِبھ وِچ بَھریا زھر نئیں چَنگا
‏تُوں تُوں تے تکرار نئیں چَنگی
ھَٹ کے بیٹھی نار نئیں چَنگی
وَکھری وَکھری تَون نئیں چَنگی
ایویں کرنی چَون نئیں چَنگی
جیٹھ ھاڑ دی دُھپ نئیں چَنگی
مَوتاں ورگی چُپ نئیں چَنگی
رَستے دے وِچ بیر نئیں چَنگی
صُلح وِچ کرنی دیر نئیں چَنگی
اے گلاں جے بُھل جَاویں گاپُترا
جَگ تے رُل جَاویں گا
بات آگے بڑھانے سے پہلے، اب تک بے شمار پوسٹس انکی ڈگری کے متعلق دیکھیں ۔ اس متعصب اور نفرت بھرے معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے بے شمار دکھ اور شرمندگی کومحسوس کیا۔ تعصب کو ہوا دینے والے سینکڑوں کمنٹس پڑھے جیسے
ایک صاحب لکھتے ہیں کہ یونیورسٹی نے اپنی کالک دھونے کے لیے ان کو ڈگری دی۔ ایک صاحب لکھتے ہیں ” ان کو دی جانے والی ڈگری ایک آڑ ہے ،کسی اور کو ڈگری دینی تھی، وہ نہ آیا تو بیچ میں ان کو بھی گھسیٹ لیا“۔ایک صاحب لکھتے ہیں ”کیا خدمات ہیں انکی جو یہ ڈگری دی گٸ “۔سب کی لکھی جانے والی تحریں لکھوں گا تو بہت ہی لمبی تحریر چاہیے ہوگی ۔
ہم کیسے لوگ ہیں ۔؟ ہم سے کچھ ہضم کیوں نہیں ہوتا ۔؟ کیا جاہلانہ فلسفہ جو ہمارے پسماندہ ذہن کی ایجاد ہوتا ہے وہ کرنا لازمی ہے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ہم ۔؟ ہم اپنا کون سا رخ دیکھاتے ہیں معاشرے کو۔؟ ہم کیوں نہیں خدمات کی پہچان رکھتے ۔؟ ملنے والے اعزاز کیا ہم سے اس لیے ہضم نہیں ہوتے کے وہ دوسرے کو ملے ہیں جب کہ ہمارا فلسفہ زیادہ بہتر تھا ہم زیادہ بہترین ہیں یا اعزاز دینے والے جاہل ہیں وہ علم نہیں رکھتے ۔؟ الفاظ انسان کا DNA ہوتے ہیں
اس پیج سے ایسی پوسٹ شاید کبھی نہیں ہوٸی آج دل بہت عجیب سا ہوا بہت سی ایسی تحریریں روز پڑھیں جاتیں ہیں لیکن پڑھنے کی حد تک لیکن ایک بندے ایک ادارے ایک اعزاز پہ ایک جیسی اتنی تنقیدی تحریں پڑھ کے دل عجیب کیفیت میں چلا گیا تو مجبوراً یہ سب کرنا پڑا۔ ہم کیوں نہیں کسی اچھی چیز کو اچھا کہتے ہم کیوں ہر طرح سے تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
شجاع آبادی جیسا شاعر موجود دور میں میں نے تو نا دیکھا نا سنا جنہوں نے بہت کم وساٸل میں بھی بہت نازک حالات میں بھی سراٸیکی وسیب میں ایک نٸ جان ڈالی انہوں نے ہر موضوع پہ شاعری کی اور مثال قاٸم کی ۔
تیکوں مفت جو شاکر لبھ گئے آں،
ساڈی قدر نہ کر، تیڈا حق بݨڑدا اے
XXXXXXXX
‏ہائی بخت تاں ہر کوئی ملدا ہائی
کہیں شخص عظیم دے وانڳوں
سکھ ساݙے در تے راہندے ھن
کہیں بشر مقیم دے وانڳوں۔
ڈھلے بخت تاں آپ وی ڈھل گئے ہیں
کہیں شجر قدیم دے وانڳوں
اج ہر کوئی شاکؔــر جھݨڑکاں ݙیندا ءے
کہں ٻال یتیم دے وانڳوں۔
XXXXXXXXXXX
خدایا خود حفاظت کر، تیݙا فرمان وکدا پۓ
کتھائیں ہے دین دا سودا ، کتھاں ایمان وکدا پۓ
کتھائیں ملاں دی ہٹی تے ،
کتھائیں پیراں دے شو کیس اچ
میڈا ایمان بدلیا نئیں, مگر قران وکدا پۓ
اتھاں لیڈر وپاری ہن, سیاست کارخانہ ہے
اتھاں ممبر وکاؤ مال ہن ، اتھاں ایوان وکدا پۓ
میڈے ملک اچ خدا ڈالر ، میڈے ملک اچ نبی پیسہ
اتھاں ایمل نہ کئی آوے, اتھاں مہمان وکدا پے
نی ساہ دا کئی وساہ شاکر، ولا وی کیوں خدا جانے
ترقی دی ہوس دے وچ ، ہر ایک انسان وکدا پۓ
XXXXXXXXXXX
ھوندی پیار دی کھیݙ مقدراں دی
کوئی جت ویندا، کوئی ھر ویندا
اے جھیل غماں دی نئیں مکدی
کوئی ݙٻ ویندا ،کوئی تر ویندا
ھوندی پیار دی سٹ تلوار وانگوں
جے وار کرے ، بندا مر ویندا
میں شاكر پیار توں ݙردا ہاں
پر دل اے ،غلطی کر ویندا۔
بندہ سجݨاں نال نئیں رس سنڳدا
بھانویں جھگڑے جھیڑے نت ھوون
ڄہڑے ھک ھوندن نئیں ݙو تھیندے
بھانویں یار نکھیڑے نت ھوون
ݙکھ سکھ دی سانجھ نئیں مک سڳدی
بھانویں وکھرے ویہڑے نت ھوون
دل شاکر دور نئیں ھوسڳدے
بھانویں وسدے سجن جتھ کتھ ھوون

اصل مسلہ یہ ہے ہم گہری بات کو گہرا دکھ سمجھ لیتے ہیں شاکر صاحب کا ہر لفظ ان کی شخصیت کی طرح گہرا ہے ہر لفظ کو بیچارگی مفلسی بدحالی ہی نا سمجھ لیا کریں شاعر اپنی ذات کا ہی عکاس نہیں ہوتا وہ اپنی حساسیت کی وجہ سے معاشرتی عکاس ہوتا ہے وہ لکھتا ہے تو لفظ لفظ معاشرے کے ہر فرد کے لیے لکھتا ہے یا یوں کہہ لیں شاعر معاشرے کا آٸینہ ہوتا ہے جس میں ہر بندہ اپنا عکس دیکھتا ہے۔

ہکو رنگ دا کفن تے ہکو ڄئیاں قبراں,
مر گئے انسان برابر،
ہوندا فرق امیر غریب دا جگ تے,
سب قبرستان برابر،
گنہگار ہوساں تے دوزخ سڑسی
تیری میری جان برابر،
کھڑے ہوسن شاکر محشر نوں
پکھی واس تے خان برابر,

قارٸین شاکر شجاعبادی کی شاعری بامقصد شاعری ہے۔ انکی کوٸی نظم ایسی ہوتی ہی نہیں جو کسی اخلاقی،معاشرت ،قومی یا مذہبی پیغام کے بغیر ہو۔ ہم پھر بھی صرف دوسری زبان کا شاعر کہہ کر بلاوجہ اعتراض کریں اور انکی قومی و معاشرتی خدمات کو نظر انداز کردیں تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے ” نہ جانے ہم کب سمجھیں گے“

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-