بہاولنگر NA-161 میں سیاسی کشمکش

بہاولنگر ضلع 1904ء میں ریاست بہاولپور کے نواب محمد بہاول خان پنجم کے نام پر بسایا گیا۔ اس سے پہلے یہاں قریب ترین بستی روجھانوالی موجود تھی اور اس علاقے کو اسی نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ علاقہ سیاسی لحاظ سے شروع دن سے ہی مسلم لیگ ن کا قلعہ رہا ہے، کہتے ہیں کہ سیاست بدلتے موسموں کی طرح ہوتی ہے، شاید اسی لیے آج کل بہاولنگر کا موسم جغرافیائی لحاظ سے سرد سے سرد اور سیاسی موسم گرم سے گرم ہوتا جا رہا ہے یہاں کے سیاسی درجہ حرارت نے گزشتہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ سیاسی اختلافات تو پہلے بھی ہوتے رہے ہیں مگر اس دفعہ سیاسی اختلافات دشمنی کی حدوں کو چھو رہے ہیں۔

بہاولنگر میں NA-161 میں ٹکٹوں کے حصول کے لیے سیاسی کشمکش اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ دو ایک ہی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواروں اور ان کے حامیوں میں سوشل میڈیا پر لفظی گولہ باری جاری ہے جو تاحال رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جن میں ایک نام سابق ایم این اے میاں عالم داد لالیکا جوئیہ کا اور دوسرا نام سابق ایم پی اے رانا عبدالرؤف کا ہے، آئیے پہلے بات کر لیتے ہیں میاں عالم داد لالیکا جوئیہ کی، میاں عالم داد لالیکا جوئیہ مرحوم میاں عبدالستار لالیکا جوئیہ کے بیٹے ہیں اس لیے مرحوم کی وفات کے بعد چونکہ ان کا بیٹا عالم داد لالیکا جوئیہ چھوٹا تھا اس لیے مرحوم کی اہلیہ محترمہ بیگم شاہدہ ستار لالیكا نے 2005 میں آزاد اور 2008 میں ق لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا جو وہ ہار گئیں بعد میں سیاسی جانشین کے طور پر میاں عالم داد لالیکا جوئیہ کو سیاست میں آنے کا موقع مل گیا، میاں عالم داد لالیکا جوئیہ کو ایک بڑا فائدہ جوئیہ برادری کا تھا جو انہیں سپورٹ کرتی اور ووٹ دیتی تھی مگر آج جوئیہ برادری ایک بڑی تعداد بھی میاں عالم داد لالیکا جوئیہ کی کارکردگی سے مطمن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک بڑا فائدہ انہیں یہ بھی ہوا کہ میاں عبدالستار لالیکا جوئیہ کا شمار میاں محمد نوازشریف کے پانچ پیاروں میں ہوتا تھا اور میاں محمد نوازشریف ان کے والد میاں عبدالستار لالیکا جوئیہ کو بہت پسند کرتے تھے اس لیے پاکستان مسلم لیگ ن سے ٹکٹ باآسانی مل گئی اور دو دفعہ بس ایسے ہی پارٹی ٹکٹ مل جانے کی وجہ سے ایم این اے تو بن گئے جو شاید اہل بہاولنگر کی بدقسمتی اور ان کی خوش قسمتی تھی، ایم این اے منتخب ہونے کے بعد وہ ایسے رو پوش ہوئے کہ کبھی حلقے میں نظر نہیں آئے اور بہاولنگر کو يكسر نظر انداز کر دیا یہی وجہ ہے کہ حلقے لوگ ان سے کافی نالاں نظر آتے ہیں۔
محمد شہزاد بھٹی shehzadbhatti323@gmail.com

اب بات کر لیتے ہیں سابق ایم پی اے رانا عبدالرؤف کی جنہوں اپنے حلقے کے لوگوں کے اصرار پر ایم این اے کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز بلدیاتی الیکشن سے کیا۔ رانا عبدالرؤف تین دفعہ بلدیہ کے کونسلر اور دو دفعہ یونین کونسل کے ناظم بنے اور پھر 2008، 2013 اور 2018 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ رانا عبدالرؤف کی ایم پی اے شپ کے دور میں بہاولنگر ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور بے شمار ترقیاتی کام ہوئے، جن میں سیوریج، گلیوں کی ٹف ٹائلز، سولنگ، سڑکیں بنی، سکولز، كالجز، ہسپتالز، ریسکیو 1122 کی اپ گریڈیشن، حیدر اسٹیڈیم کی اپ گریڈیشن، بہاولپور یونیورسٹی کے کیمپس کا قیام، میڈیکل کالج کی منظوری ہوئی، بہاولنگر موٹروے کی منظوری میں اہم کردار اور دیگر منصوبوں کا کریڈٹ بھی انہی کو جاتا ہے، تاہم ابھی بہت سارے کام ہونا باقی ہیں رانا عبدالرؤف کا خواب ہے کہ اگر اللہ کریم نے انہیں دوبارہ موقع دیا تو وہ بہاولنگر میں کیڈٹ کالج کے قیام، زرعی یونیورسٹی کے قیام اور آئی ٹی یونیورسٹی کے قیام کے لیے بھرپور کوشش کریں گے تاکہ طلباء کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے دوسرے شہروں کا رخ نا کرنا پڑے۔ ان کی اپنے حلقے میں مضبوط گرفت ہے وہ لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں فرزند بہاولنگر اور خادم بہاولنگر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا NA-161 بہاولنگر کے مضبوط ترین امیدوار رانا عبدالرؤف ہیں۔ برحال ٹکٹ دینے کا فیصلہ تو پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ نے کرنا ہے مگر اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت کو چاہئیے کہ حلقہNA-161 بہاولنگر کا غیر جانبدرانہ سروے کروایا جائے اور پھر کسی کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا جائے۔ رانا عبدالرؤف نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر پارٹی میاں عالم داد لالیکا جوئیہ کو ٹکٹ دیتی ہے تو میرا ووٹ اور میری سپورٹ پارٹی کے وسیع تر مفاد میں ان کے لیے ہو گی لہٰذا اب میاں عالم داد لالیکا جوئیہ اور رانا عبدالرؤف کے حامیوں کو بھی چاہیے کہ بہاولنگر میںNA-161 بہاولنگر میں ٹکٹوں کے حصول کے لیے اس گھمسان کی لڑائی میں مقدس رشتوں کو کسی قیمت پر نہ ٹوٹنے دیں۔

الیکشن تو ایک دن کا کھیل ہو گا، اس کے بعد ہمیں اسی معاشرے میں مل جل کر رہنا ہو گا- کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو سیاسی بحث اس حد تک ہی کریں کہ ہمارے پرخلوص دوستیاں اور مقدس رشتے برقرار رہیں۔ اللہ کریم ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-