ہمارا کلچر ،ہماری ثقافت، ہماری پہچان

ثقافت کسی بھی معاشرے کا بنیادی جزو ہے۔ جس کے بغیر معاشرہ اپنا وجود کھو دیتا ہے کسی بھی قوم کی تہذیب اور ثقافت اس قوم کی پہچان سمجھی جاتی ہے اور یہ ہی دنیا میں ایک قوم کو دوسری قوم سے ممتاز بناتی ہے۔قوموں کی پہچان اُن کے ادب اور ثقافت سے کی جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اقدار و روایات اس کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس معاشرے کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔اخلاقی و معاشرتی رسوم، علوم و فنون، عقائد و افکار کے مجموعے کو ثقافت خیال کیا جاتا ہے۔ علاقے کا رہن سہن، زبان ،بولی،کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لوگوں سے میل جول اور انداز گفتگو ، شعرائے کرام، موسم، کھیل کود ،شادی بیاہ و دیگر رسومات بھی ثقافت میں شمار ہوتی ہیں۔ ثقافت کو اتحاد کی علامت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جن قوموں کی ثقافت ختم ہو جاتی ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قوم کو کمزور کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کی ثقافت پر حملہ کیا جاتا ہے۔ہر قوم کی الگ ثقافت ہوتی ہے۔ کسی قوم کی ثقافت کبھی ہو بہو دوسری قوم کی ثقافت نہیں ہوتی ہے البتہ ثقافت پر دوسری قوموں کی اقدار کا اثر ضرور ہو سکتا ہے۔

پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ترین ملکوں میں شامل ہے جو قدیم ترین تہذیبوں کا ورثہ موجود ہے۔جہاں ہڑپہ، موہنجوداڑو، مغلیہ اورگندھارا تہذبوں کے آثار ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیسکو پاکستان کے چھ مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کرچکا ہے۔ان چھ مقامات میں موہنجوداڑو،تخت بھائی کے کھنڈرات،شاہی قلعہ،شالامارباغ لاہور،مکلی کا قبرستان اور جہلم کا قلعہ روہتاس شامل ہیں
ہماری ثقافت کے خدوخال کو سنوارنے میں جہاں وارث شاہ، خواجہ غلام فرید ،شاہ عبدالطیف ، ،رحمان بابا،اقبال اور فیض احمد فیض کا بہت کردار رہا ہے،وہی پر معین الدین چشتی،میر اور غالب کے افکار بھی اپنی جگہ مسلمہ اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔اگرچہ کچھ لوگوں کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا لیکن پاکستانی کلچر کی بنیادوں میں ان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔اسی طرح ہمارے شعر وادب اور ذوقِ جمالیات کو سنوارنے میں حافظ،سعدی اور رومی نے جوکردار ادا کیا اس سے کون انکار کر سکتا ہے؟ الغرض ہماری ثقافت کی جڑیں اپنی آفاقیت کے باوجود اس دھرتی میں پیوست ہیں۔ پاکستان کی تہذیب اور ثقافت قدیم اور مختلف رنگوں سے بھری ہوئی ہے پاکستان کا علاقہ ماضی میں دراوڑ، آریا ،ہن ایرانی یونانی عرب ترک اور منگول تہذیبوں کی ریاستوں میں شامل رہا ہے ۔ان تمام تہذیبوں نے پاکستان کی موجودہ تہذیب و ثقافت پر گہرے اثرات چھوڑے

پاکستانی ثقافت کی قدامت جاننے کے بعد اس بات کا با خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سرزمین کتنی قدیم ہے ،  یہاں ہندوؤں،بدھ مت اور پھر مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی.  اس ثقافت میں فارسی،عرب،ایرانی، ہندوؤں کے اثرات مقامی رسم رواج اور زبان سے ملتے ہیں، ملک کے مختلف علاقوں کے تمدن میں فرق ضرور ہے پھر بھی اسلامی تہذیب کا حصہ ہونے کی وجہ سے تہذیب اور ثقافت میں بڑی ہمانگی پائی جاتی ہے دراصل پاکستانی کلچر مادی اور رومانی اقدار کے اشتراک سے وجود میں آیا ہے
آج کی 21صدی میں ہمارے نوجوان یکسر سب کچھ بھولا رہے ہیں وہ جو.  کبھی اپنے تہذیب و تمدن کے امین ہوا کرتے تھے آج وہ مشرقی اقدار کو اپنانے کی بجائے مغربی دنیا کے ویسٹنٹ کلچر کو اپناہ رہے ہیں
دوسری طرف ہماری ثقافت عدم توجہی کا شکار ہے ہم اپنی ثقافت کو اپنانے میں توشرم محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کی ثقافت کو اپنانے میں فخرسمجھتے ہیں۔ ہم نے اپنی ثقافت کو اس قدر نظر انداز کر دیا ہے کہ ہماراطرز زندگی ہماری ثقافت سے مختلف ہو چکا ہے

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ثقافت سے کنارہ کشی اختیا ر کرتے چلے جا رہے ہیں اور اسی طرح غیر ملکی ڈراموں اور فلموں کے ذریعے دوسری اقوام کی ثقافت ہم نے اپنانا شروع کر دی ہے یہ غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ان کی زبان، ان کے لباس ا ور رواجات خصوصا شادی بیاہ کی رسم و رواجات نے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے کسی بھی ملک کی فلمیں اور ڈرامے اپنی ثقافت کو فروغ دینے میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں ہمارے پڑوسی ممالک کے ڈرامے تو اپنی ثقافت کو نہایت خوبصورتی سے پیش کر رہے ہیں مگر ایک طویل مدت سے ہمارے ڈرامے اور فلمیں بھی ہماری ثقافت کو فروغ دینے میں مرکزی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں غیر ممالک کی ثقافت کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور آئندہ آنے والی نسلیں ہماری ثقافت سے کوسوں دور چلی جائیں گیاور آئین ممکن ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیں آئندہ آنے والی نسل کو ان تمام برائیوں سے بچانے کے لئے ہمیں اپنی ثقافت کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔مگر تمام حالات کو جانتے ہوئے بھی ارباب اختیار اس طرف توجہ نہیں دے رہے اس لئے آج تمام تر ذمہ داری ہم پر ہے آج وقت ہم سے یہ تقاضا کررہا ہے کہ ہم اپنی ثقافت کو بچانے کے لئے موثر کردار ادا کریں اور غیر ممالک اقوام کی ثقافت کو اپنانے کی بجائے اپنی ثقافت کو فروغ دیں اپنی زبان پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کریں اپنے لباس کی اہمیت اور اس کی خوبصورتی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو زیادہ سے زیادہ ز یب تن کرنے کی کوشش کریں اور اپنی تمام تر تقریبات میں اپنے رواجات کو اپنانے کی کوشش کریں۔ تا آئندہ آنے والی نسل اس بھول بھولیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنا دامن بچا سکیں اور دیگر اقوام کی ثقافت سے دور رہتے ہوئے اپنی ثقافت پر فخر کر یں اور ایک مضبوط اور منظم قوم بن کر دنیا میں ابھر سکیں۔ گزشتہ ہفتے

نگران وزیر قومی ورثہ و ثقافت جمال شاہ نے  پاکستانی فن اور ثقافت کو عالمی سطح پر فروغ دینے کے لئے غیر معمولی منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا
شعبہ آثار قدیمہ کی ویب پورٹل اور موبائل ایپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا پاکستان کے کلچر کو عالمی سطح پر فروغ دیا جا رہا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کو بہت سی منفرد ثقافتوں اور روایات سے نوازا گیا ہے جس کی ایک وسیع تاریخ ہے انہوں نے کہا کہ قوم اپنے فنکار اور ثقافت کو بڑی عزت دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سیلوگوں کو تاریخی اثاثوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مدد ملے گی بالخصوص نوجوان طبقہ کو اپنے ثقافتی مقامات اور ورثے کے بارے میں جاننے کے مواقع میسر آئیں گے۔ یہ ایپ Heritage of Pakistan گوگل کے پلے سٹور پر دستیاب ہے اس ایپ میں پاکستان کے چھ ہزار تاریخی مقامات کوشامل کیا جائیگا۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-