ایک وقت تھا کہ مسلمان حکمران پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے تھے۔ مسلمان ایمان کی دولت سے مالا مال تھے۔ اسلام کی روح کے مطابق ایک دوسرے کے بھاٸی تھے،ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی تھے،ایک دوسرے کی عزت کے محافظ تھے، اسلام کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھتے تھے۔ خلوص وقربانی کا پیکر تھے، اسام کیلٸے جان و مال سب قربان کرنے کیلٸے ہروقت تیار رہتے تھے، پوری دنیا کے عیسائی ، یہودی اور دیگر اقوام کے لوگ مسلمان حکمرانوں کے زیرِ سایہ رہنے پر مجبور تھے ، اور باوجود سینکڑوں کوششوں کے مسلمانوں کی برابری نہیں کر سکے تھے۔ مسلمانوں کے عروج سے دل برداشتہ ہو کر عیسائیوں اور یہودیوں کے بڑے بزرگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے کہ کس طرح مسلمانوں سے نجات حاصل کی جائے۔ کافی غور و حوض کے بعد یہ طے پایا کہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی جاٸے،ان میں نسلی تفاخر پیدا کیا جائے ، خاندانی حسب و نسب کا تفا خر پیدا کیا جائے ،فرقہ وارانہ نفرت پیدا کی جائے اور عربوں اور غیر عربوں میں فرق کو اجاگر کیا جائے۔ یعنی کہ ہر وہ کوشش کی جائے جس کے نتیجے میں مسلمان ایک دوسرے سے دوور رہیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ آپس میں جھگڑیں، نسلی تفاخر کی وجہ سے ان میں نفرت بڑھے ،عرب اور غیر عرب کی تمیز سے ایک دوسرے سے محبت کی بجائے نفرت کریں وغیرہ وغیرہ۔ اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے باقاعدہ پڑھے لکھے لوگ متعین کیے گئے۔
ان میں سے کچھ نے تو عالم دین کا حلیہ اپنایا اور بظاہر مبلغ اسلام بنے اور فرقہ بازی کو خوب فروغ دیا فلاں کافر، فلاں کافر ،فلاں کافر کو عروج دیا۔ ان کی تعلیمات بیان سے متاثر ہو کر سیدھے سادے مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹنے پر اتر آئے ۔ لاکھوں مسلمان اپنے ہی مسلمان بھاٸیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔کچھ نے ماہرین تعلیم کا حلیہ اپنایا اور اپنی پسند کے نصاب کو ہمارے لیے ضروری قرار دیا کچھ نے انہوں نے دن رات محنت کر کے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی عرب اپنے اپ کو غیر عربوں سے اعلی سمجھنے لگے۔ اسکے علاوہ ایک اہم کام یہ کیا گیا کہ مسلمانوں کو انکے حکمرانوں کٕے خلاف اکسایا گیا اور آزادی کی دلفریب تشریح کرکے گمراہ کیا گیا۔ ان تمام منصوبوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان جو پوری دنیا پر حکومت کررہے تھے۔آپس میں جنگ وجدل میں مصروف ہوگٸے۔ حکمرانی کے لالچ میں بے دریغ انسانی قتلِ عام ہوا۔ نسلی تفاخر نے ایک دوسرے کے دل میں نفرت پیدا کردی۔ اپنے آپکو اعلیٰ و ارفع جبکہ دوسروں کو ادنیٰ سمجھا گیا۔
نتیجہ سواٸے چھوٹے چھوٹے علاقوں کے مسلمانوں سے حکمرانی چھین لی گٸی۔ بظاہر کچھ علاقوں میں مسلمان حکمران ہیں لیکن حقیقت میں وہ کٹھ پتلیاں ہیں جو غیروں کے عشاروں پر چلتے ہیں۔
یہود ونصاریٰ کی منشإ کے مطابق پوری دنیا میں حکمران متعین کیے جاتے ہیں۔ ان سب وجوہات کے باوجود اللہ کے فضل سے یہود ونصاریٰ کے پِٹھووں کی حکومت ہونیکے باوجود وطنِ عزیز کے کچھ جان نثاروں نے اپنے انداز میں کام کرتے ہوٸے پاکستان کو دنیإ اسلام کا پہلا ایٹمی ملک بنا دیا۔ ملک معاشی طور پر بھی مضبوط ہونے لگا۔
یہود و نصاریٰ ایک بار پھر حرکت میں آٸے۔
ہمیشہ کی طرح پھر وہی کہانی دہراٸی جانے لگی۔
اپنے مقاصد کے حصول کیلٸے قوم میں آزادی اور غلامی کا نعرہ ایجاد کیا، اپنے مفادات کا تحفظ کرنیکے باوجود ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے والوں کو بڑے اداروں کے بڑے عہدِ داروں کی زبانی ڈاکو لٹیرے اور غدار بناٸے گٸے۔ وطنِ عزیز کے اعلیٰ عہدِ داروں کو دولت کے بل بوتے پر اپناغیر اعلانیہ غلام بنا لیا جو عوام کو دکھانیکے لٸے محبِ وطن ہونیکا ڈھونگ رچا رہے تھے لیکن حقیقت میں ملک کی جڑیں کھوکھکلی کررہے تھے، جنہوں نے کسی کو ڈاکو ،لٹیرا تو کسی کو صادق وامین کے القابات دیکر اپنے ہمنوا بنا کر غیروں کے ٹاسک پورے کیے ۔ صرف یہی تک محدود نہ رہے بلکہ کچھ عرصہ بعد
مطلوبہ نتاٸیج نہ ملے تو ڈاکو اور لٹیرے ایماندار ہوگٸے اورصادق وامین قرار دیے گٸے لوگ چور ،اور غدار ٹھہرے۔ اپنے کارندوں کو ہم میں پھوٹ ڈالنے اور اپنے وطن کے محافظوں سے نفرت پیدا کرنے کا ٹاسک دیا گیا ،جو انہوں نے بڑی چالاکی سے پورا کیا
بدقسمتی سے ہماری عوام بھی انکے آلہ کار بن گٸے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کی گٸی۔ ملک کی سلامتی داٶ پر لگا دی گٸی۔ ملک کی سلامتی کی علامت یعنی فوج کے خلاف نفرت پیدا کی گٸی۔( یہ حقیقت ہے کہ فوج ہو یا کوٸی بھی ادارہ اعلیٰ عہدِدار نام کے محبِ وطن ہوتے ہیں،حقیقت میں غیروں ک پٹھو اور غلام ۔جیسے کسی بھی ادارے کا کوٸی بھی بڑا آفیسر یا سربراہ رہٹاٸیر ہونیکے بعد پاکستان میں نظر ہی نہیں آتا۔) سوشل میڈیا پر کچھ ہمارے ناسمجھ بھاٸی جو غیر ارادی طور پر غیروں کے آلہ کار بن چکے ہیں اور انکی دلفریب باتوں کا شکار ہوکر اپنی جان کی پراہ کیے بغیر،دن رات کی تمیز کیے بغیر وطن کا دفاع کرنیوالے اور وطن کیلٸے جانیں دینے والے سپاہیوں کے خلاف نفرت کے بیج بو رہے ہیں، کچھ نمک حرام بھی ہیں جو حق نمک حرامی پورا کررہے ہیں۔ تھوڑی سختی ہوٸی تو ملک چھوڑ کر اپنے آقاٶں کے زیرِ سایہ جا بیٹھے اور وہاں سے اپنے ذمہ لگاٸے گٸے کام کو پورا کرنیکے لٸے۔ غلط اور جھوٹی باتیں پھیلا کر ملک میں بدامنی پیدا کررہے ہیں،سادہ لو شہریوں کو جھوٹی اطلاعات کی بنیاد پر ملک کے خلاف اکسا رہے ہیں۔انکی حرکات و اعمال سے ملک کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے،عوام میں دفاعی اداروں کے اہلکاروں کے خلاف نفرت پیدا ہوٸی ہے ،حالانکہ انکا کسی بھی معاملے میں رتی بھر کوٸی کردار نہیں۔ پھر بھی اپنے مفادات کیلٸے انہیں نشانے پر رکھا ہوا ہے۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-