خدا خدا کر کے عوام کی عزت بحال ہونے کا موسم آخر آہی گیا ویسے تو یہ موسم ہر پانچ سال بعد آتا ہے اور کبھی کبھی جلدی بھی آجاتا یے اور ہھر چند دنوں کی بہار دکھاکر رخصت ہو جاتا ہے اس موسم میں ہم عوام وہ چہرے دیکھتے ہیں جو سالہ سال ہمیں سیکورٹی کی فوج یا پھر سکرین پر ہی دیکھائی دیتے ہیں ورنہ تو ان کے پاس جانا درکنار ان کے راستے سے گزرنا بھی کسی جرم سے کم نہیں ان کا ہائی فائی پروٹوکول راستے میں آنے کی پاداش میں اکثر آپکو روند بھی دیتا ہے۔
جی تو یہ موسم الیکشن کا موسم ہے اور اس میں عوام کو پھر سے چکنی چپڑی باتوں سے شیشے میں اتارنے کی کوشش کی جائے گی۔عوام کو چکمہ دینے کا ایک بہت پرانا حربہ ہے۔
خیر فیصلہ عوام کا ہے۔
انتخابات جمہوریت کی بنیاد ہوتے ہیں اسی لئے آئین میں ان کے انعقاد کا طریقہ متعین کر دیا گیا ہے۔اگرچہ یہ بدقسمتی ہے کہ آئین میں دی گئی 90 دن کی مدت میں انتخابات نہیں ہو رہے تاہم دیر آید درست آید کے مصداق ان کی تاریخ کا اعلان ایک خوش آئند امر ہے، آئینی اداروں نے مل جل کر فیصلہ کیا کہ انتخابات 8فروری 2024 ء کو منعقد ہوں گے۔ اب کسی کو انتخابات ہونے کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا ہےچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلآخر یہ کارنامہ کردکھایا، قوم کو انتخابات کی تاریخ لے دی، اب انتخابات بھی لے کر دیں گے۔۔۔؟اب ایک نہیں دو تین قسم کی بحثیں شروع ہوں گی۔ ایک بحث تو پہلے ہی ہو رہی ہے کہ انتخابات میں ”لیول پلئینگ فیلڈ“ کے حوالے سے ہوں۔پیپلزپارٹی اس حوالے سے ایک نقطہ ء نظر رکھتی ہے ان کا لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ وہ مطلب نہیں رکھتا جو پی ٹی آئی کے مطالبے کی بنیاد ہے۔ ویسے پی ٹی آئی اس حوالے سے زیادہ واضح نقطہ ء نظر رکھتی ہے۔ عام لوگوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ مطالبہ کتنا درست ہے اور مبنی برحقائق ہے لیکن پیپلزپارٹی کا لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ ایک سیاسی شوشہ لگتا ہے۔ شہبازشریف کی 16ماہی اتحادی حکومت میں اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد پیپلزپارٹی اس دور حکمرانی کے منفی سیاسی اثرات اور نتائج سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینا چاہتی ہے۔ ظاہر ہے یہ درست رویہ نہیں ہے ایسا تو ممکن نہیں کہ اقتدار کے مزے تو مل جل کر لے لئے جائیں اور جب حساب کتاب کا وقت آنے والا ہے تو آپ اتحادی کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرکے اپنے آپ کو الگ صف میں کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔ پیپلزپارٹی کا یہ رویہ بادی النظر میں درست نظر نہیں آ رہا۔ بہرحال لیول پلئینگ فیلڈ کا ایشو ابھرے گا۔دوسرا ایشو شفاف و منصفانہ الیکشنوں کے انعقاد میں کیئرٹیکر حکومتوں کے کردار کا ہے۔ شفاف الیکشنوں کے انعقاد کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کے کردار پر پی ٹی آئی پہلے ہی سوالیہ نشان لگا چکی ہے۔ اب پیپلزپارٹی بھی دھیمے سروں میں الیکشن کمیشن کے کردار پر انگشت نمائی کرنے لگی ہے۔
یہاں یہ سوال بھی ہے کہ کیا دوسری جماعتوں کی طرح تحریک انصاف کو بھی انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابی سرگرمیاں شروع کرنے کی مکمل آزادی ہوگی؟
نوازشریف 10 نومبر سے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے جا رہے ہیں اور اپنا پہلا مانسہرہ میں کریں گے، اسی مانسہرہ میں تحریک انصاف کے ورکر کنونشن کو روکنے کے لئے پولیس نے دو روز پہلے جو سختی اور پکڑ دھکڑ کی اسے دیکھتے ہوئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے ملک میں لیول پلئینگ فیلڈ موجود ہے۔ نوازشریف کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لئے یہی پولیس اور اور صوبے کی انتظامیہ پورا زور لگا دے گی، اتنا ہی زور جتنا تحریک انصاف کے جلسوں کو روکنے کے لئے لگایا جا رہا ہے۔
ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں کو بلا تفریق انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی دی جائے، خاص طور پر ایسے عمل سے گریز کیا جائے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ انتخابات کو ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق یکطرفہ بنایا جا رہا ہے۔ انتخابات پر عوامی اعتماد قائم نہ ہوا تو آنے والا سیاسی سیٹ اپ بھی بے یقینی کا شکار رہے گا اور دو اڑھائی سال بعد اسے بھی گھر بھیجنے کی پرانی روایت برقرار رکھی جائے گی۔ سیاسی جماعتوں کی ساکھ پچھلے دو سال میں بہت خراب ہوئی ہے۔ اگر ایک عام آدمی کے بھی ووٹ ڈالنے ہر ایسی قدغنیں لگائی جائیں گی تو یہ لیول پلئینگ نہیں تو انتخابات کی شفافیت پر کون یقین کرے گا، معاملہ خاصا پیچیدہ ہے
دس نومبر سے جب نوازشریف اپنی عوامی رابطہ مہم شروع کریں گے اور پے در پے جلسوں کا سلسلہ شروع ہوگا تو اس وقت یہ تاثر مزید گہرا ہو جائے گا کہ انہیں فری ہینڈ دیا گیا ہے اور باقی جماعتیں بشمول تحریک انصاف انتظامیہ کی اجازت سے سرگرمیوں کی حد تک محدود کر دی گئی ہیں 2018ء کے انتخابات میں اگرچہ نوازشریف نا اہل ہونے کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکے تھے، تاہم مسلم لیگ (ن) پر انتخابات میں حصہ لیتے یا جلسے کرنے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔ اگر ایسی کوئی پابندی لگائی جاتی تو 2018ء کے انتخابات یکسر اپنی کریڈیبلٹی کھو دیتے۔ اس بار صورت حال الٹ گئی ہے۔ عمران خان جیل میں ہیں ان کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے، اس کا اندازہ مستقبل قریب میں ہو جائے گا۔ تاہم وزیر اعظم اور چیف الیکشن کمشنر یہ واضح بیان دے چکے ہیں تحریک انصاف انتخابات میں حصہ لینے کی اہل ہے اور اس کا انتخابی نشان بھی بلا ہوگا۔ اگر نوازشریف بھی تمام سیاسی جماعتوں کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی حمایت کر دیتے ہیں، تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی کسی دعوت کو قبول کرنے سے انکار نہ کریں، جو ملک میں سیاسی و جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لئے دی گئی ہو۔ سیاست میں دروازے بند نہیں کئے جاتے۔ یہ غلطی عمران خان سے دور اقتدار میں ہوئی تھی اور وہ سیاسی طور پر تنہا رہ گئے تھے۔
یہ تو طے ہے کہ انتخابات کے لئے کسی جماعت کے پاس بھی کوئی نیا نعرہ نہیں، سب پرانے چورن پر گزارا کریں گی۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی خم ٹھونک کے میدان میں آ گئے ہیں اور انہوں نے عوامی خدمت کا نعرہ لگا کے اعلان کیا ہے پیپلزپارٹی اس بار پھر حکومت بنائے گی۔ عوامی خدمت بھی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے وسیع معانی ہیں، جتنے چاہو نکال لو، ہوتی ہے یا نہیں وہ علیحدہ بات ہے۔ مسلم لیگ (ن) تو ایک ہی نعرہ لگائے ہوئے ہے، ترقی کا سفر وہاں سے شروع کریں گے جہاں سے روکا گیا تھا۔ یہ بھی ایک ایسا نعرہ ہے جس کی کوئی گرفت نہیں کی جا سکتی۔ تحریک انصاف کو اس بار کوئی نیا نعرہ دینے کی ضرورت نہیں، اس کے پاس یہی بیانیہ کافی ہے کہ غیر ملکی مداخلت پر اس کی حکومت ختم کی گئی جو ملک کے خلاف سازش ہے۔ اب کوئی بتائے ان سب جماعتوں کے پاس عوام کو دینے کے لئے کوئی نئی بات بھی ہے یا نہیں،
بس عوام کو انگھلیوں پر ناچنے کے سوا کوئی نئی منتک دکھائی نہیں دیتی جبکہ زمینی حقائق کے مطابق دیکھا جائے تو ملک گوڈے گوڈے مسائل میں دھنسا ہوا ہے ان مسائل سے نکالنے کے لئے کسی کے پاس کوئی پلان ہے، کوئی مہارت، کوئی لیاقت، کوئی ایجنڈا موجود ہے