پاکستان اور بھارت ایک ساتھ آزاد ہوٸے۔ اسکے بعد چین آزاد ہوا جبکہ 1971 میں بنگلادیش نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے خود مختار ملک کی حیثیت اپنا لی۔ یعنی پاکستان اور بھارت اکٹھے آزاد ہوٸے لیکن ذمینی حقاٸیق دیکھیں تو بھارت نے پاکستان کی نسبت زیادہ ترقی کی ،بنگلادیش نے بھی آزاد ہونیکے بعد ترقی کی راہ پر چلنا شروع کیا اور اسکی ترقی کی رفتار پاکستان سے کٸی گنا زیادہ ہے۔ چین بھی اسی طرح آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن پاکستان کچھ عرصہ ترقی کی راہ کا مسافر بنتا ہے لیکن پھر کچھ عوامل اسے گھسیٹ کر پیچھے لے آتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد کوٸی پھر آکر پاکستان کو ترقی کی پٹڑی پر چڑھاتا ہے۔ ابھی ترقی کی گاڑی رفتار پکڑ ہی رہی ہوتی ہے کہ کوٸی ترقی کی پٹڑی پر چلتے پاکستان کی زنجیر کھینچ دیتا ہے اور ترقی کی رفتار کم ہوجاتی ہے بلکہ گاڑی ریورس گٸیر میں ڈال دی جاتی ہے۔ یہ کھیل سالہا سال سے جاری ہے اور اسکے ساتھ آزاد ہونیوالا بھارت اور بعد میں آزاد ہونیوالے بنگلہ دیش، اور چین ترقی کی راہ کے مسافر بنے تو کہاں تک پہنچ گئے۔اسکے مقابلے میں ہم کہاں ہیں۔ طاقتوروں کی مرضی تو روز اول سے ہی ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ پسندیدہ شخصیت کو فرشتہ بنا کر مسندِ اقتدار پر بٹھانا اور ناپسندیدہ شخصیات کوہٹانے کا سلسلہ بھی روزِاول سے ہی راٸیج ہے۔یہاں تک کہ بانیِ پاکستان کو بھی نہ بخشا گیا،لیاقت علی خان اور نہ جانے کتنے لوگ پسندیدہ سے نہ پسند ہوٸے اور مفاد پرستوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس وقت کے حالات کے حساب سے شروع ہی سے طاقتوں کے حامل کھلاڑیوں نے اپنی طاقت کے لوہے بھی منواٸے لیکن پھر بھی ترقی کا پیہ چلتا رہا،کیونکہ لالچ،ہَوَس، طاقت کے حصول اور دیگر عوامل ایک سطح تک ہی کیے جارہے تھے۔ سونا دینیوالی مرغی سے سونے کے انڈے حاصل کیے جارہے تھے اور انڈوں کے مزید حصول کو جاری رکھنے کیلٸے مرغی کی خوراک اور صحت کا بھی اہتمام کیا جارہا تھا تاکہ سونے کے انڈے ختم نہ ہوں۔ان سب عوامل اور وجوہات کے باوجود 1960 تک پاکستان ترقی کی شاہراہ کا اہم مسافر تھا جو اپنی مختلف رکاوٹوں کے باوجود اپنی منزل کی طرف گامزن تھا۔ اس دوران سیاسی حکومتیں بھی آٸیں اور فوج کے ذمہداران نے بھی اپنا حصہ لیا۔ 1960 ایوب خان کا دور جب ملک ایشیاء میں معاشی طور پر سب سے مضبوط ملک بن چکا تھا۔ پاکستان ترقی کے لحاظ سے جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ کوریا،چین ہم سے پیچھے تھے جبکہ مڈل ایسٹ کا ہمارے قریب شمار نہ تھا ۔ایوب خان کے دورحکومت میں ڈیم، ریلوے ٹریک، پل اور ملک میں ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں لگیں۔ریاست کارخانے لگاتی تھی اور اسے کمرشل بنیادوں پر چلا کر اسے پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا جاتا تھا۔جو ترقی کا ٹائم فریم طے کرتے تھے اور اس فریم میں مطلوبہ ہدف طے کرتے تھے۔ 1968 میں جنرل ایوب نے 10 سالہ ترقی اور دوسرا پانچ سالہ منصوبہ مکمل ہونے پہ جشن منایا
اس دور میں برطانیہ کی ملکہ ، وزیر اعظم میک ملن، فرانس کے صدر چارلس ڈیگال،امریکی صدر ائزن ہاور، صدر جانسن ،چینی صدر وزیراعظم ،شاہ ایران، ملکہ فرح دیبا پاکستان میں گھومتے تھے۔ لیکن ہماری قسمت کہ آج ہم ویزوں کے لیے ان کی ایمبیسیز کے سامنے منت سماجت کرتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں۔اس دور میں پاکستان میں 22 بڑے صنعتکار گروپ تھے جبکہ بھارت کے پاس صرف 2 برلا اور ٹاٹا .یہاں پہنچ کر کچھ اہم اور قابل دماغوں نے اپنا کھیل کھیلنا شروع کیا۔ عوام کو ور غلایا گیا ، جمہوریت جمہوریت کھیل کا آغاز ہوا اور لالچ، ہر، خود غرضی اور ہَوَس کا ایسا دور شروع ہوا جسکی بریکیں کسی سمندر میں پھینک دی گٸیں۔نہ بریک لگے نہ ہَوَس اور خود غرضی رکے۔ جمہوریت کی آڑ لیکر اور غیر مرٸی طاقتوں کے آلہ کار بنکر جنرل ایوب کو نکال پھینکا گیا۔اس کے بعد ہمارا نام نہاد جمہوریت کا سفر شروع ہوا ۔بھٹو نے بنگلہ دیش میں 60 فیصد صنعتوں کے مالک اور پاکستان کے لیے ان صنعتوں کو کھو دینے والے داٶد اور اسکے خاندان سمیت دیگر صنعت کاروں کو بغیر کسی قابل فہم وجہ کے گھر میں نظر بند کر دیا تھا ۔ سونے کے انڈے دینیوالی مرغی کو انڈوں کے حصول تک محدود رکھنے کی بجاٸے اسے ذبح کرنیکی کوشش ہوٸی تو مرغی ہی حرام ہوگٸی۔
یوں ہم نے بہت محنت سے بائیس صنعتی گروپ تباہی کے دہانے پر پہنچائے۔ جبکہ بھارت میں اسی دوران دو سو بائیس صنعتی گروپ بلندیوں پر پہنچ گئے تھے۔ کیونکہ وہاں نہ تو کوٸی کسی کا آلہ کار بنا۔ نہ ہماری طرح ہَوَس پرست اور خودغرض۔ دنیا کے لٸے وہ جیسے بھی تھے اپنے ملک و قم ہندو کیلٸے مخلص تھے۔ خودغرضی کی پہلی مثال سانحہ مشرقی پاکستان بنا۔ جس نے پاکستان کا اہم حصہ جدا کردیا اور باقی ماندہ پاکستان ایک معذور انسان کی شکل میں تھا کہ جسکا اہم جزو کاٹ دیا گیا ہو۔
کچھ عرصہ جمہوریت چلی۔ اپنے پسندیدہ افراد کو نوازنے کیلٸے ملک کے اہم ادارے نجکاری کے نام پر براٸے نام رقم کے بدلے دیدیے گٸے۔ ان وجوہات کی وجہ سے حالات نازک ہوٸے تو فوج تماشاٸی نہ رہ سکی اور حکومتی معاملات سنبھال لیے۔ جنرل ضیاء الحق آ گئے ،وہ دوہری چالوں کے ماہر تھے،افغان جنگ کو بہانا بنا کر مغربی ممالک کو انکی ہی طرح ڈیل کیا۔انکے دور میں پاکستان میں ڈالرز کی آمد آمد تھی۔ انھوں نے سرکاری اخراجات میں کمی کی ، غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی، اور برآمدات اور صنعت کاری کو فروغ دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے زرعی پیداوار خصوصاً گندم کو بڑھانے کے لیے زرد انقلاب کا آغاز کیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت نے ان کے دور میں سالانہ 6.5 فیصد کی اوسط شرح سے ترقی کی۔ کچھ نام نہاد ذہین اور مخصوص ذہنوں کے دماغ میں کیڑا بلبلایا اور 1988 میں ایک ہواٸی حادثے میں پاکستان سے انتہاٸی محبت کرنیوالے اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر دوڑا نیوالے دماغوں کے حامل افراد کو راستے سے ہٹادیا گیا۔
جنرل ضیإ،جنرل اختر عبدالرحمٰن اور انکے ساتھیوں کی حادثے میں وفات کے بعد پاکستان میں پھر جمہوریت چل پڑی اور تباہی کے سفر کا آغاز ہو گیا۔ کبھی بےنظیر اور کبھی نواز شریف۔ باری چل پڑی قرض پر قرض لیا جاتا اور معیشت چلائی جاتی۔ اور ”اپنی گاڑی“ بھی اسی ” فیول“ سے بلکہ ملک کی معیشت سے زیادہ اپنی ”گاڑی کا فیول“ پورا کیاگیا۔ اور اس وقت کے فوج کے سربراہان کو خاموش رکھنے کیلٸے اسی ”گاڑی“ میں بٹھا لیاگیا“ بعد میں سننے میں آیا کہ ان سابقہ سربراہانِ پاک فوج نے مبینہ طور پہ دوسرے ممالک میں جزیرے ،فارم ہاٶس اور نہ جانے کیا کچھ خرید کر پاکستان کا نام” اونچا“ کیا۔ سیاست دانوں کی باہمی چپکلش اور خود غرضی کی بناپر پھر فوج نے مداخلت کی جنرل مشرف آ گئے۔کچھ اقتصادی و معاشی اصلاحات کا آغاز ہوا ۔ اسی دور میں پاکستان میں ٹیکنالوجی کا آغاز یوا۔ ہر پاکستانی کے پاس موباٸیل،ٹی وی، کمپیوٹر اور دیگر اشیإ پہنچ گٸیں۔پاکستان میں 2005 میں 1.5 ارب ڈالر سرمایہ کاری آئی جو کہ 1999 سے 500 فیصد زائد تھی۔پاکستان کی ترسیل زر 2005 میں 4 ارب ڈالر سے زائد ہو گئ یعنی 1999 کے مقابلے میں 480 فیصد اضافہ ہوا۔صرف سی این جی سیکٹر نے ہی 7 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی اور 50 ہزار نئی ملازمتیں پیدا کی گئی ۔ٹیلی مواصلات کے شعبے میں 10 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئ جس نے 10 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اس وقت 2000٪ اضافہ ہوا جو 700 سے بڑھ کر 15،000 ہو گیا تھا۔ صنعتی شعبے میں 26 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اسلام آباد میں میڈیا یونیورسٹی قائم ہوئی۔ پاکستان کی معیشت 200 فیصد بڑھ کر 160 بلین ڈالر ہوگئی۔2007 میں جی ڈی پی پرچیزنگ پاور پیریٹی پی پی پی 475 بلین ڈالر تھی۔ 2007 میں جی ڈی پی فی کس 1000 ڈالر تھا۔ 2007 میں برآمدات بڑھ کر 18.5 بلین ڈالر ہوگئیں۔ ٹیکسٹائل کی برآمدات چھونے لگا اور بڑھ کر 11.2 بلین ڈالر ہوگئی۔2007 میں ایف ڈی آئی 8 بلین ڈالر کو عبور کرگیا۔اور پھر عوام کو جمہوریت یاد آ گئ تمام پارٹیز جنرل مشرف کے خلاف متحد ہو گئیں۔یوں جنرل مشرف پاکستان کو خدا حافظ کہتے ہوٸے رخصت ہو گئے۔آج تک گھر اور نوکریوں کے جو وعدے سیاسیوں نے کئیے وہ آمروں نے پورے کئے۔
کہا جاتا ہے فلاں مقبول لیڈر کی حکومت گرا دی گئی لیکن یہ نہیں سوچا جاتا یہ ایک ملک ہے یہ فین کلب نہیں ہمیں مقبول نہیں مخلص لیڈر چاہیے۔ پتہ ہی نہیں چلتا یہ لیڈر ہیں یا اداکار۔ بہر حال جو بھی ہیں،ہیں اول درجے کے مکار۔منافق،ہَوَس پرست اور خود غرض۔ہمیں منافقت، لوٹ مار، اقرباء پروری، ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے اور سیاسی بقاء کے لیے قومی سلامتی، خود مختاری اور قومی یکجہتی تک کو قربان کردینے والی سیاست نہیں ایک بھرپور نظام چاہیے ایسا مضبوط نظام جس سے روٹی کپڑا مکان مل سکے ۔ پچھلے پانچ برسوں میں ملکی معیشت کا جو حال ہے اتنا برا حال قیام ِ پاکستان کے بعد 70 سالوں میں نہ ہوا۔ جمہوریت کے مزے لوٹنے والے ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جاتے ہیں، فوجی حکومت نہ ہونیکے باوجود افواج کے سربراہ مشکل حالات میں پھر آگے آتے ہیں اپنے تعلقات سے معیشت کی گاڑی کو پٹڑی پر چڑھانیکی کوشش کرتے ہیں ۔ لیکن ہمارے لیڈرز”اپنی گاڑی کا فیول“ پورا کرنیکے لٸے پھر معیشت کو پٹڑی سے اتار دیتے ہیں۔ مبینہ طور پہ اب فوج کے کچھ لوگ بھی انکے ہمنوا بن گٸے ہیں۔سفید پوش،غریب،محنت کش طبقے کو قبر کے کنارے پہنچا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی کہ حقیقی طور پر پاکستان کیلٸے خون پسینہ ایک کرنیوالے بھوکوں مررہے ہیں یا خود کشیوں پر مجبور ہیں۔ پاکستانی معیشت اندھیری راہ پر چل پڑی ہے۔ اور
آج پھر یہ تمام جماعتیں باری باری پاکستان کو لوٹ کر پھر سے افواج پاکستان کے خلاف محاذ بنا رہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم مقبول رہنماوں کے سامنے ناچیں۔کب تک ہم معیشت کی بنیاد میں بارودی سرنگیں بچھانے والوں کو راج گدی پر بٹھاتے رہیں گے؟ کب تک؟” نہ جانے ہم کب سمجھیں گے۔“
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-