حکومت پاکستان کی طرف سے حسن کارکردگی کا ایوارڈ حاصل کرنے والے ناصر ادیب صاحب سے ان کے گھر میں ملاقات پر انٹریو وکرنے کا موقع ملا پہلی ملاقاتوں میں ان کے حالات زندگی کے چند باب سننے کو ملے تو مجھ میں یہ شوق پیدا ہوا کہ ان کا تفصیلی انٹریو کیا جائے تاکہ مجھ جیسے گم نام لکھاریوں کے لیے ان کی زندگی کے حالات و اقعات سے سیکھ کر عمل کرکے کامیابی تک پہنچنے کے راستے روشن ہوسکیں میں نے ان سے وقت مانگا تو یہ اُس وقت لندن میں تھے اور مجھے انہوں نے واپسی پر ملاقات کا اظہار کیا جب یہ واپس پاکستان آئے تو مجھے گھر آنے کی دعوت دی میں ان کے سمجھائے ہوئے ایڈریس پر پہنچا اور گھر کے قریب پہنچ کر فون کیا کہ میں فلاں مقام پر کھڑا ہوں مجھے ان کی بزرگی اور بڑے پن نے اُس وقت حیرت میں ڈال دیا جب وہ پاؤں میں چپلی پہنے مجھے رسیو کرنے کے لیے میری طرف آتے رستے میں کھڑے فون پر راہنمائی کر رہے تھے کہ آپ آگے آ جائیں میں آپ کو گھر لے جاؤں گا میں جب ان کے پاس پہنچا تو گلے مل کر گھر لے آئے اُس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ بڑا وہ آدمی ہوتا ہے جو کسی کو چھوٹا یا کمتر ہونے کا احساس نا ہونے دے۔ گھر پہنچے تو مہمان نوازی کے عمل کے دروان باتیں شروع ہوئیں میں نے شروع سے شروع کرنے کی درخواست کی جس کا آغاز انہوں نے اپنے آبائی مقام سرگودھاکے گاؤں پھلراں وال میں عید کے روزہونے والی اپنی پیدائش سے شروع کیاان کی ماں بتاتی ہیں کہ یہ واحد زمضان تھا جس میں ان کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی نا کوئی روزہ قضا ہوا عبادتوں کی تکمیل کرتی ماں نے ان کو جنم دینے کے بعد ان کا نام محمد خان رکھا بڑے بھائی نے عید کے دن پیدا ہونے کی نسبت سے عید محمد رکھا اور والد نے محمد نواز رکھا جو طے ہو گیاجبکہ ناصر ادیب نام ان کے مرشد نے رکھا تھا جو زمانے کی زبان پر چڑھ گیا ان پڑھ خاندان کے اس بچے نے میڑک میں فسٹ پوزیشن لی ان کا نام سکول کے ریکارڈ میں آج بھی سب سے اوپر درج ہے جوانی کے دور میں ان کو مشہور ہونے کا بہت شوق تھا ان وقتوں میں پیسوں کے سکے زیراستعمال ہوا کرتے تھے کبھی بڑا نوٹ نہیں دیکھا تھا اور اس کے برعکس ان کے گاؤں کا چوہدری جو بہت مالدار تھا بے شمار دولت مند تھا اس کا انتقال ہوا تو ناصر ادیب اپنے والد سے پوچھتے ہیں کہ ابا جی چوہدری کا انتقال ہوا ہے تو اس کی اخبار میں خبر کیوں نہیں آئی؟ جس پر ان کے والد نے کہا کہ اخبار میں خبر اُن لوگوں کی آتی ہے جو دنیا میں کوئی منفرد کام کرتے ہیں اس بات نے ان کے اندر یہ ہمت بنا دی کہ مشہور ہونے کے لیے دولت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا بندے میں کوئی ایسا فن ہونا چاہیے جو اسے نمایاں کرکے دنیا میں مشہور کر دے یہاں ایک اور واقعہ سناتا چلوں کہ جنون شہرت میں ان کوعلم ہواکہ منفرد کام میں ایک کام نشان حیدر کا ملنا بھی ہوتا ہے اور وہ فوج میں بھرتی ہونے پہنچ گئے ان کے ساتھ جو دوسرا بندہ فوج میں بھرتی ہوا تھا وہ جنرل پرویز مشرف تھے ٹرینگ کے مراحل میں انہوں نے ایک فوجی سے پوچھا کہ نشان حیدر کیسے ملتاہے جس پر اس نے بتا یا کہ نشان حیدر فوجی کو شہادت کے بعد ملتا ہے۔
یہ سنتے ہی خود میں ڈوبے حیران ہوتے ہوئے کہنے لگے یہ کیسی شہرت ہے جسے میں خود ہی نہیں دیکھ سکتا۔ہاہاہاہا۔اور وہ فوج کی نوکری چھوڑ کر فرار ہو گئے جس کی وجہ سے ان پر پرچہ بھی درج ہوا جو خاتون بیگم الماس دولتانہ نے خارج کروا کر ان کی جان چھڑوائی مگر اس عمل پر ان کے والد نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو گھر سے نکال دیا بی اے کی تعلیم انہوں نے خود محنت مزدوری کر کے مکمل کی ساتھ میں وہ اپنی زات پر غور کرتے کہ میرے اندر ایسا کیا ہے جو اگر نکھر جائے تو ایک چمکدار ہیرا بن سکتا ہے اسی سوچ میں گم تھے کہ ان کو سمجھ آئی مجھے اللہ کریم بہت منفرد خیال اور سوچیں عطا کرتا ہے کیوں نا میں ان کو لکھنا شروع کروں اور پھر ترتیب دوں لہذا انہوں نے ایک کہانی لکھی جس کے مکمل ہونے کے بعد ان کو اپنے اس عطا کردہ کمال کا احساس ہوا مگر یہ کافی نہیں تھا اس کا دنیا کے سامنے آنا ضروری تھاکہانی کو فلم کی شکل ملتی تو یہ اپنا مقام بنا سکتی تھی مزید لکھتے چلے گئے انہوں نے افسانے لکھنے شروع کئے جو اُس وقت کے شہرہ آفاق لکھاری آغا شورش کشمیری کے چٹان پرنٹنگ پریس میں بے حد پسندکرتے ہوئے شائع ہوئے اور اس کو پڑھ کر آغا شورش کشمیری صاحب نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جو ایک بہترین آغاز تھا سرگودھا کے ایک رسالے میں بھی لکھتے رہے جس کے ان کو ہفتے کے پانچ روپے ملتے تھے مگر یہ چاہتے تھے کہ ہر آدمی تک ان کا کام پہنچے اور اس کی ایک ہی شکل تھی کہ فلم لکھی جائے اس ارادے کے پیش نظر 1967میں لاہور ایورنیو سٹوڈیو آ گئے جہان انہوں نے رحمان ورما صاحب کے ساتھ کام کیا جو بنا معاوضے کے خالی چائے پانی سے اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے انہوں نے ناصر ادیب کو اقبال کاشمیری سے ملوایا جو اُس وقت کے بہترین پرڈوسر ڈائریکٹرتھے اُ ن کو اپنی کہانی سنانی شروع کی جسے آدھا سننے کے بعد اقبال کشمیری کہنے لگے کہ کہانی تو ختم ہو گی ہے جس پر ناصر ادیب نے کہا سر کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے کافی بحث ہوئی کہ جہاں سے پنجابی فلم ختم ہوتی ہے وہاں سے تم نے شروع کردی ولن پارٹی آئی انہوں نے ہیرو کی فیملی کو مارا پھر ہیرو نے بدلا لیا کہانی تو ختم ہو گئی ہے تو ناصر ادیب نے کہا آپ اس سے آگے سنیں گے تو پتا چلے گا یہ سنتے ہی اقبال کاشمیری صاحب نے ایک بڑی سی گالی نکالی اور کہا دفع ہو جاؤ میرے آفس سے تمہیں کس نے کہہ دیا تم رائٹر ہویہ ڈانٹ سننے کے بعد ناصر ایب ایورنیو سٹوڈیو کے گیٹ سے باہر نکل رہے تھے تو ان کی ایک آدمی کے ساتھ ٹکر ہوئی دیکھا تو وہ لجینڈ اداکار محمد علی صاحب تھے ان کے پیچھے ان کی بیگم زیبا اور ان کے پیچھے ایک کالے چشمے والا آدمی تھاتو محمد علی صاحب نے بڑی محبت سے پوچھا کیا ہوا ہے تو ناصر ادیب کے کہا کچھ نہیں۔تو محمد علی صاحب نے کہا اگر کچھ نہیں ہوا تو تم رو کیوں رہے ہوناصر ادیب کو اُس وقت پتا چلا کہ میں رو رہا ہوں محمد علی صاحب ان کو اپنے کمرے میں لے گئے بیٹھاکر پانی پلایا پیار کیا اور کہا اچھا مجھے سناو وہ کہانی جب ناصر ادیب نے پوری کہانی سنائی تو کالے چشمے والے آدمی نے کہا میری فلم غیرت کا نشان ہٹ ہو گی تو اس کہانی پر میں فلم بناؤں گا ناصر ادیب بہت خوش ہوئے اور ان کے ساتھ رہنا شروع کر دیا مگر قسمت کا کھیل کہ وہ فلم ہٹ نا ہوئی تو انہوں نے ناصر ادیب کو منہوس کہہ کر بھگا دیا
ناصر ادیب بہت مایوس اور دُکھی ہو کر واپس گاؤں اپنی ماں کے پاس آ گئے سردیوں کا موسم تھا ماں نے بیٹے کو دیکھ کر سینے سے لگانے کی کوشش کی تو ناصر ادیب نے ماں کا ہاتھ جھٹک کر کہاکہ آپ نے مجھ سے ہمیشہ جھوٹ بولا آپ نے تو کہا تھا یہ میرا وہ لال ہے جو جب تک جئے گا بادشاہی کرئے گاآپ تو میرے لیے دُعا بھی نہیں کرتیں میں تو سات سال زلیل ناکام ہو کر واپس آ گیا مجھے تو جانور بھی نہیں پوچھتے بندے کیا قدر کرتے ماں نے اپنے لال کو مایوس اندر سے ٹوٹا ہوا پایا توخاموش رہیں ناصر ادیب ہمیشہ اپنی ماں کے ساتھ سوتے تھے اُس رات بھی ماں کے ساتھ سوئے ہوئے تھے صبح فجر سے پہلے ماں جاگی وضو کیا چارپائی پر پڑے تکیے پر قرآن پاک رکھ کر پڑھتے ہوئے ناصر ادیب کو جگایا اور پوچھا بیٹا تم کیا بننا چاہتے ہو ناصر ادیب نے کہا ماں میں رائٹربننا چاہتا ہوں ان پڑھ ماں نے کہا وہ کیا ہوتا ہے ناصر ادیب نے بتایا کہ میں کہانی لکھوں گا اس پر فلم بنے گی پھر ریڈیو پر میرا نام آئے گا سادہ ماں سن کر کہنے لگی اچھا اچھا مگر ان کے چہرے سے پتا چل رہا تھا کہ انکو سمجھ نہیں آئی مگر اُس ماں کے بول یہ تھے کہ بیٹا مجھے نہیں پتا تم کیا بننا چاہتے ہو مگر تم لاہور چلے جاؤایک ماں کا اپنے رب پر یقین کہہ رہا ہے کہ تمہیں دیکھ کر زمانہ کہے گا کہ ناصر ادیب جیسا بیٹا دوبار کسی ماں نے پیدا ہی نہیں کیاناصر ادیب کہتے ہیں کہ اُس وقت مجھے یہ بس تسلی ہی لگی اور میں اگلے دن لاہور ایورنیو سٹوڈیو آ گیاسردیوں کے دن تھے موسلادھار بارش شدید زور سے برس رہی تھی رات کافی ہوچکی تھی اپنے کرایے کے کمرے تک پہنچنے میں کوئی بس نہیں ملی تو پیدل ہی چل کر سردی میں بھیگتے ہوئے اپنے کمرئے میں گئے جس کا اُس وقت پچیس روپے مہینہ کرایہ تھا وہاں پہنچے اور کپڑے بدل کر جب سونے لگے تو بتاتے ہیں مجھے کتے کے بچے کے رونے کی آواز آئی جسے پہلے نظر انداز کرتے رہے مگر پھر اُس درد ناک آواز میں شدت کی کراہت بے چینی جیسے کوئی مرنے والا آخری سانسوں کو بچا رہا ہو اس آواز نے دل کو ایسا کھینچا کہ اپنی چارپائی سے اُٹھے اور آواز کا تعاقب کرتے ہوئے بارش میں بھگتے سڑک کے درمیان کھلے ہوئے گٹر میں گرے ہوئے کتے کے بچے کو دیکھتے ہیں جس کی ا ٓواز یہاں لائی تھی گٹر میں پاؤں ڈال کر قریب کیاتوکتے کا بچہ پاؤں سے چپکتا مگر پھسل کر پھر گر جاتا ناصر ادیب کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اگر اس بچے کو بچانا ہے تو مجھے اس گٹر میں اترنا پڑے گاگویا وہ اتر گئے اور بچے کو نکالا نلکے پر لے جا کر دھویا پھر خود کو دھویا اور اسے اپنے کمرے میں لے آئے وہ بچہ کانپ رہا تھا سردی سے ٹھرٹھرا رہا تھا خدشہ ہونے لگا کہ اسے نمونیہ نا ہو جائے کہیں یہ مر ہی نا جائے اسے خشک کرنے کے لیے آگ کا انتظام نہیں تھا نا گیس نا لکٹریاں کافی سوچنے کے بعد وہ رجسٹرر نظر آیا جس پر ناصر ادیب نے فلمیں لکھی ہوئی تھیں اسے پکڑا اور ایک ایک صفہ پھاڈ کر کتے کے بچے کے اردگرد بچھا کر جلاتے رہے آہستہ آہستہ سارے صفات جل گئے اور بچہ خشک ہو کر نارمل ہو گیا تو ناصر ادیب نے اس کتے کے بچے کو سینے سے لگا لیا اور وہ بچہ ایسے چپکا جیسے گمشدہ بچہ اپنی ماں کے سینے سے لگ کر سکون پاتا ہے اس بچے کو لے کر سو گئے جب صبح آنکھ کھلی تو محسوسات بناتی ہیں کہ یہ وہ ناصر ادیب نہیں جو رات کو سویا تھاجسمانی روحانی سکون اور اطمینان کی کیفیت جیسے ہر خواہش پوری ہو گئی ہو سوچتے ہیں اگر ایک کتے کے بچے کو بچا کر اللہ اندر بدل دیتا ہے تو ایک انسان کے بچے کو بچانے پر کتنا بڑا انعام ہو گا یہ سوچتے ہوئے جھاڑو سے راکھ اکٹھی کر رہے تھے کہ ایک شخص کمرے میں آیا اور کمر پر ہاتھ مارکر بولاچلو تمہیں فلم مل گئی ہے چل کر سائن کروپیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ وہی آدمی تھا جس نے ان کو منہوس کہہ کر چھوڈ دیا تھا وہ ان کو چار آنے گھنٹہ سائیکل کرایے پر لے کر حسن عسکری صاحب کے پاس اسلامیہ پارک لے آیاوہاں ملاقات ہوئی فلم سائن ہوئی وحشی جٹ اور جب بنی تو اس نے حالات ہی بدل کر رکھ دئیے دنیا نے کندھوں پر نہیں سر پر اُٹھا لیا پھر اگلی فلم مولا جٹ بنی تو نا دنیاکو کوئی اور رائٹر پسند آیا نا فلم۔ ناصر ادیب صاحب کے قلم میں ماں کی دعا کی سیاہی ایسی چلی کہ آج 52سال ہو گئے چار سو پندرہ فلمیں مارکیٹ آئیں اور حال میں ہی پاکستان کی سب سے مہنگی فلم دی لجینڈ آف مولا جٹ ریلیز ہوئی جس نے ایک مرتبہ پھر تاریخ رقم کر دی ان کے قلم سے نکلی فلموں نے انہیں تاریخ ساز لکھاری قرار دیا ان کے لکھے ڈائیلاگ سے قانون سازی ہوئی مجسٹریٹ کا قیام ہوا پاکستان کی نمائندگی دنیا بھر میں پنجابی اور پنجاب کے کلچرکے چہرے پیش کرتے ہوئی اس لازوال عروج میں جب کبھی ناصر ادیب صاحب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ان کو ماں کی دُعا مرشد کی دُعا اور ایک کتے کے بچے سے صلہ رحمی کے سوا کامیابیوں کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-