اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں

کہیں پڑھا تھا اسرائیلی کہاوت ہے کے بارے میں کہ جو قوم آپ سے تعلیم ، معیشت، ٹیکنالوجی اور دفاعی نقطہ نظر سے آگے بڑھ رہی ہو اور آپ کو شکست دے رہی ہو تو اس سے لڑکر اپنا جانی و مالی نقصان کرنیکی بجائے اس میں پھوٹ ڈال دینی چاہیے، انہیں آپس میں لڑنے جھگڑنے اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے پر لگا دیا جاناچاہیے۔ ان میں فحاشی اور عریانی کو فروغ دینا چاہیے ان میں نسلی تفاخر پیدا کر دینا چاہیے جب یہ ساری منازل طے کر لی جائیں تو اس قوم سے لڑنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ وہ آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑتے مرتے رہیں گے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنا تن من دھن لگا دیں گے تو ان کے پاس کسی سے لڑنے کے لیے قوت ہی نہیں رہے گی، ان میں اچھائی برائی کی تعمیر ختم ہو جائے گی۔وہ آپ سے لڑنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔ نہ وہ آ پس کے اختلافات اور لڑائیوں سے فارغ ہوں گے نہ وہ کسی کے لیے درد سر بنیں گے۔

پہلے اس کہاوت کی سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن وطنِ عزیز میں آجکل جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہوتا نظر آرہا ہے، ہم جن حالات کاسامنا کر رہے ہیں تو بخوبی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کہاوت بالکل ٹھیک ہے۔ عرصہ دراز سے عموماً اور چار پانچ سال سے خصوصاً وطن عزیز میں جو حالات درپیش ہیں وہ چیخ چیخ کر اسراٸیلی کہاوت کی سچاٸی بیان کررہے ہیں۔ انکی کی گٸی کاوشوں کی بدولت ہمارے موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ ہم حقیقتاً غیروں کے بچھاٸے جال میں پھنس چکے ہیں اور ہم انکے آلہ کار بن گئے ہیں۔ انکی کی گٸی کوششوں کی بدولت ہم ایک دوسرے سے نفرت کر رہے ہیں،اپنے علاوہ سب کو وطن دشمن، غدار، منافق اور نہ جانے کیا کیا سمجھتے ہیں۔ ایک مخصوص گروہ وطن عزیز کے نوجوانوں کے ذہنوں کی برین واشنگ کرنے میں مصروف ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوان اپنے ہم نواؤں،ہم خیالوں کے علاوہ سب کو کافر،غدار اور ملک دشمن تصور کرتے ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے۔ نوجوان نسل کو سمجھانے انہیں ایجوکیٹ کرنے اور معاشرے کا بہترین رکن بنانیکی تربیت سوشل میڈیا کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ فی زمانہ سوشل میڈیا سب سے بااثر اور متاثر کن پاور ہے کسی بھی معاملے کیلٸے۔ پوری دنیا اپنے مفادات کیلٸے سوشل میڈیا کو اپنے حساب سے چلارہی ہے،لیکن ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر تقریبا 60 فیصد سے زیادہ مواد انفارمیشن، ٹیکنالوجی، جدت کی ضرورت کی بجاٸے ملک دشمنی پر اکسانے والا ہے، ہماری نوجوان نسل مسلسل نفرت کی جانب گامزن ہے۔ اپنے لیڈرز کو نوذ باللہ نبوت تک پہنچا دیتے ہیں لیکن مدِ مقابل کو انسان تک سمجھنے سے انکار کرتے ہیں، واضح غیر اسلامی باتوں کی اپنے حساب سے تشریح کرکے ملک میں نفرت کا بیج بویا جارہا ہے، مستقبل کو نفرت اور ملک دشمنی پر اکسایا جارہا ہے۔ وطنِ عزیز کا (اللہ نہ کرے) وجود خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔

لیکن بدقسمتی ان تمام وجوہات کے باوجود، ہمارے متعلقہ ادارے خاموش تماشاٸی بنے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ بقول شخصے یہی ادارے اگر وقت پر حرکت میں ا جاتے،سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاٸی جانیوالی بے بنیاد اور نفرت آمیز سر گرمیاں پھیلانیکی حوصلہ شکنی کی جاتی تو نہ اتنی نفرت بڑھتی اور نہ ہی ملک کے حالات اتنے نازک ہوتے ۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس وقت وطنِ عزیز کے نوجوانوں کی مسلسل، بغیر روک ٹوک اور بلا خوف و خطر منفی برین واشنگ جاری ہے۔ جو سوشل میڈیا کے توسط سے دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کے ہوتے ہوٸے ہمیں کسی دشمن کی کوٸی ضرورت نہیں۔ ہمارے اپنوں کی مہربانی سے حالات اس نہج تک پہنچ رہے ہیں جہاں غیروں کو کچھ کرنیکی ضرورت ہیں نہیں رہے گی۔ یہاں نفرت کرنیوالے بھی اپنے ہی ہیں،مارنے والے بھی اور مرنیوالے بھی اپنے ہی ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر دیکھیں تو حالات کنٹرول سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں،لیکن ہوٸے نہیں ۔ان حالات میں ملک کے دفاعی اداروں سے وابستہ افراد کن کے خلاف ایکشن لیں گے، کیونکہ سامنے بھی تو اپنے ہی ہیں، جو متعلقہ اداروں کی نا اہلی اور غفلت کے باعث غیروں کے ہاتھوں میں کھلونے بن گئے ہیں۔ اب بھی وقت ہے معاملات کو سدھارنے کا۔ ملک کے مستقبل کو صحیح صورتِ حال سے روشناس کرنے کا،بغیر کسی پسند نہ پسند کے ۔صرف پاکستان کا مفاد دیکھا جاٸے۔چند ” مخصوص“ اور کنگ میکرز کا نہیں۔ وطنِ عزیز کے نوجوانوں کے ذہنوں میں رچی بسی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جاٸے۔ملک کو مسلسل تجربہ گاہ نہ بنایا جاٸے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-