بھلاٸی کا آغاز خود سے کریں۔

بزرگوں سے بھی سنا اور مذہبی کتب میں بھی پڑھا کہ نیکی اور اچھا کام کرنیکی ابتدا اپنے گھر،خاندا۔ رشتہ دار،عزیزو اقربا ،بستی ،محلہ اور علاقہ سے کرنی شروع کریں،دوسروں اور باہر کے لوگوں کیلٸے جدو جہد تب کریں جب اپنوں اور اپنے قریبی لوگوں کو ضرورت نہ ہو،بشرطیکہ آپ یہ کام حقیقی طور پر صرف اور صرف نیک نیتی اور اچھاٸی کیلٸے کررہے ہوں دکھاوے کیلٸے نہیں۔ یہ بات اسلٸے دل میں آٸی کیونکہ کچھ عرصہ قبل ہمارے ایک دوست جو ایک امدادی ادارے کے کارکن اور ذمہدار ہیں۔ وہ غریوں کی مدد کرنے اور تھلیسیما کے مریض بچوں کیلٸے خصوصاٗ اور عام مریصوں کیلٸے عموماً خون کے عطیہ کرنے اور خون کا عطیہ کرنیوالے والے گروپ کے بھی ممبر ہیں، سے ملنا ہوا، ان سے ملاقات ایک مقامی ہسپتال میں ہوٸی۔ وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوٸے ہمیشہ پریشان ہی نظ آتے ہیں،لیکن اس دن کچھ زیادہ ہی پریشان نظر آٸے۔ سلام دعا کے بعد اتنی زیادہ پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ آج صبح اٹھ کے ناشتے پر بیٹھا ہی تھا کہ میرے موبائل پر ایک فون کال موصول ہوئی ۔دعا سلام کی اور وجہ پوچھی تو صاحب کہنے لگا کہ ہمارے مریض کو خون کی اشد ضرورت ہے کسی نے آپ کا نمبر دیا ہے اگر آپ جلدی سے خون کا انتظام کردیں گے تومہربانی ہوگی۔

پوچھنے پر اسنے بتایا کہ ہم فلاں ہسپتال میں ہیں ۔میں نے ان کو مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں اور آپ کو دوبارہ فون کروں گا ۔ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ اسی نمبر سے دوبارہ فون آیا اور کہنے لگا کہ کیا ہوا خون کا میں نے اسے تسلی سے جواب دیا کہ بھائی آپ کو پتہ ہے ہم پہلے ہی تھیلیسیمیا کے 220 مریض بچوں کے لیے کام کر رہے ہیں ان کے لیے خون پورا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر میں پھر بھی خون دینے والے دوستوں سے رابطہ کر رہا ہوں جیسے ہی آپ کے مطلوبہ خون عطیہ کرنے والا مل جا ئے گا تو ہم آپ سے رابطہ کرینگے ۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ ہوسکتا ہے ایمر جنسی ہو اور مریض کو خون کی اشد ضرورت ہو، تو اپنے ناشتے کو چھوڑ کر گھر سے نکلا ۔اور ساتھ ساتھ دوستوں کے ساتھ مطلوبہ خون کے بارے میں بھی رابطہ کرتا رہا۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا ہو گا کہ متعلقہ فون کال والے نے پھر کال کی ۔میں نے ان کو حالات کے بارے میں بتایا کہ میں کوشش میں ہوں اور کچھ لمحوں میں آپ کے ساتھ ہسپتال میں موجود ہوں گا۔حسب روایات اپنے دوستوں کے ساتھ رابط کرتے کرتے میں متعلقہ ہسپتال پہنچ گیا ۔نمبر ملایا تو مریض کے ساتھ آئے ہوئے بھائی کے ساتھ ملاقات ہوئی ۔اس دوران ایک دوست نے فون کیا کہ میں خون دینے کیلے تیار ہوں اور چند لمحوں میں ہسپتال پہنچ جاونگا ۔ابھی مریض کے ساتھ آئے ہوئے ہٹے کٹے رشتہ دار سے مریض کے بارے میں معلومات لینے کی کوشش کر رہا تھا کہ مریض کو کیا مسئلہ ہے کونسا خون گروپ ہے کونسے ڈاکٹر سے علاج کر ریے ہو کب سے اس ڈاکٹر سے علاج کر رہے ڈاکٹر نے کب آپ کو خون کی ضرورت کے بارے میں بتایا کہ اچانک خون دینے والا دوست آگیا ۔اچانک دل میں خیال آیا کہ مریض کے ساتھ آئے ہوئے رشتہ دار سے ان کے خون کے گروپ کے بارے میں پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ نے کبھی خون دیا ہے کہ نہیں تو موصوف کہنے لگا کہ میں نے کبھی بھی خون نہیں دیا اور نہ ہی مجھے میرا خون گروپ کا پتہ ہے اور نہ ہی میں نے خون دینا ہے کہ اچانک ایمبولینس ہسپتال میں آئی اور خون میں لت پت ایک مریض کو اتارنے لگے جس کا ابھی ابھی روڈ ایکسڈنٹ ہوا تھا ،ڈاکٹر نے ضروری چیک اپ کیا اور مریض کو اپریشن تھیٹر لے جانے کا کہا اور ساتھ خون کی بوتل ارینج کرنے کا بھی کہا ۔

ادھر پہلے والا مریض مجھے جلدی کا کہہ رہا ہے کہ اپریشن تھیٹر سے نکلنے والے پیرامیڈیکس نے مجھے جانتے ہوئےکہا کہ میں ادھر خون ارینج کرنے والا کارکن ہوں کہنے لگا صاحب اس مریض کے ساتھ کوئی بھی نہیں اور اگر منٹوں میں اس کے خون کا انتظام نہیں ہوا تو یہ جان سے جا سکتا ہے ۔ خوش قسمتی سے جب حادثے کے شکار مریض کے ٹیسٹ ہوٸے اور جو خون گروپ اس کا تھا وہ بندہ پہلے سے ہی پہلے مریض کیلے آیا ہوا تھا اور میرے پاس تھا۔انسانیت کا سوچا کہ ابھی ایمرجنسی ہے یہ آیا ہوا بندہ اپنا خون اس مریض کو دیگا اور میں پہلے والے مریض کیلے دوبارہ کوشش شروع کرتا ہوں ۔خون عطیہ کرنے والے دوست کے تمام ٹیسٹ کرائے اس نے خون دیا ڈاکٹر صاحب آپریشن کیلئے آپریشن تھیٹر گئے ۔آپریشن شروع ہوا ۔ادھر میں پہلے والے مریض کیلے خون کی تلاش میں کال پہ کال کرتا جا رہا تھا کہ مریض کا رشتہ دار آیا اور میرے ساتھ نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے لگا ۔میں نے ان کو سمجھایا کہ بھائی ٹینشن مت لو ایمرجنسی تھی آپ کے لیے میں کوشش کر رہا ہوں ۔کہ باتوں باتوں میں ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ کے خون کے گروپ کا ٹیسٹ کرتے ہیں پہلے تو اس نے ہزاروں بہانے بنائے لیکن آخر کار مان گیا جب خون گروپ کے ٹیسٹ کا رزلٹ آیا تو وہی گروپ تھا جو اس کے مریض کا تھا ابھی میرے لیے تو آسانی ہوئی لیکن جب اس کو کہا گیا کہ آپ کا خون آپ کے مریض کے خون سے میچ کرتا ہے آپ ہی خون دے سکتے ہیں اپنے مریض کو تو اس نے بہانے بنانے شروع کئے کہ میں کمزور ہوں ۔کام کاج کرتا ہوں میرا دل ڈرتا ہے دل گھبراتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور کوشش جاری رکھی ،مجھے ان کو ہر لحاظ سے منانا تھا کہ اسے ہی اپنے مریض کو خون دینا چاہیے، جو میں نے کیا ،بڑی مشکل سے وہ بمدہ اپنے مریض کو خون دینے پر امادہ ہوا۔ اسکے بھی ٹیسٹ ہوٸے اور اسکا خون اسی کے مریض کیلٸے بلیڈ کیا جانے لگا۔ وارڈ میں ان کے مریض کو میں ملنے لگا کہ اتنی دیر میں آپریشن تھیٹر سے ایکسیڈنٹ والے مریض کو لایا گی۔ا تمام میڈیکل سٹاف ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ شکر ہے کہ خون بروقت ملا ورنہ اس کی جان چلی جانی تھی ۔ادھر دوسرے مریض کا کام بھی ہو گیا دونوں مریضوں کی زندگی بچ گئی لیکن اس سارے واقعے سے پریشانی اسلٸے بڑھی کہ مریض کیلٸے مطلوبہ خون بغل میں تھا لیکن اسے حاصل کرنیکے لٸے ڈھنڈھورا پورے شہر میں پیٹا گیا۔ آپ بھی لوگوں کو بتاٸیں کہ خدرا جب بھی آپ کو یا آپ کے مریض کو خون کی ضرورت ہو تو شروعات اپنوں سے کریں، خود خون دیں ،فیملی ممبرز کو آمادہ کریں، اگر آپ کا یا آپ کےخاندان کے کسی فرد کا خون میچ نہیں کر رہا تو اپ ہمارے ساتھ رابطہ کریں ۔ہم کوشش کر ینگے کہ آپ کو مطلوبہ خون مہیا کریں۔ لیکن پہلے آپ کا بھی حق بنتا ہے کہ کسی کے بھائی بیٹے سے خون نکالنے سے پہلے آپ اپنی فیملی میں کوشش کریں اپ ایسا نہ ہو کہ آپ کے وجہ سے کسی اور کی زندگی کا چراغ نہ بجھ جاٸے۔

انکی بات سن کر سوچنے پر مجور ہوں کہ ہم کتنے خود غرض اور مطلب پرست ہوگٸے ہیں کہ انتہاٸی ضرورت میں بھی اپنوں کو اپنا خون نہیں دے سکتے، حالانکہ جو خون عطیہ کرتے ہیں،چند دنوں میں ہی انکا خون قدرتی طور پر دوبارہ پورا ہوجاتا ہے، انہیں کوٸی خاص نقصان نہیں ہوتا لیکن انکے اس قابلِ تعریف عمل سے ایک انسان کی زندگی بچ جاتی ہے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-