اسرائیلی ریاست جس نے اپنا ناجائز وجود برقرار رکھنے کے لیے فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام سے نہ صرف ان کا اپنا علاقہ ہی چھین رکھا ہے بلکہ انہیں اپنی ہی سر زمین پر زندگی گزارنا مشکل، تلخ اور ناممکن بنا دیا ہے۔
ہٹلر نے 1940 کی دہائی میں لگ بھگ ساٹھ لاکھ یہودیوں کا صفایا کر دیا ساری دنیا کے یہودیوں نے ہٹلر کے اس عمل کو نسل کشی قرار دیا جبکہ نازیوں نے جرمنی میں پیدا ہونے والے افراط زر اور بے روزگاری کا ذمہ دار یہودیوں کو قرار دیا ہٹلر نے دس سال یہودیوں کے خاتمے کے لیے مختص کر دیے جہاں اس نے بہت بڑی تعداد میں یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا وہیں اس نے کچھ یہودیوں کو زندہ چھوڑ دیا اور کہا کہ میں انہیں اس لیے چھوڑ رہا ہوں تاکہ دنیا سمجھ جائے کہ میں نے باقی یہودیوں کو کیوں مارا تھا بس یہیں پر ہٹلر غلطی کر گیا وہ ایک آ مر تھا کسی کو جواب دہ نہیں تھا اگر وہ اپنا کام مکمل کر جاتا تو دنیا بہت سے عذابوں سے محفوظ ہو جاتی اسرائیل کا ناپاک وجود جب سے نمودار ہوا ہے اس نے فلسطینی مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے
گزشتہ 75 سالوں میں یہودی فلسطینی مسلمانوں کی نسلیں کھا گئے ہیں لیکن انہوں نے آ ج تک برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا غزا کی پٹی میں موجود حماس کے مجاہدین کا صبر اب جواب دے چکا ہے گزشتہ چند ہفتوں سے انہوں نے اسرائیل کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کی ابتدا کر دی ہے۔حماس نے بڑے منظم طریقہ سے اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کو مات دے کے اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائی کی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل کا بھاری جانی اور مالی نقصان کیا۔
مگر اب اس کے جواب میں اسرائیل جو ظلم اور بربریت نہتے اور مظلوم فلسطینیوں پر جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے پر ڈھا رہا ہے وہ تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
غزہ اور قریبی علاقوں کے مسلمان بے یار و مددگار 57 اسلامی ممالک کے منتظر ہیں
اسرائیل اس وقت ننگی جارحیت پر اتر آیا ہے ….
گزشتہ دنوں اسرائیل نے بربریت کی تمام حد پار کر دی اسرائیل نے غزہ ہسپتال پر سٹرائیک کر کے 500 سے زائد بچوں حاملہ عورتوں ڈاکٹروں سمیت سینکڑوں لوگ شہید کر دئیے پورے شہر کو اسرائیل ویسے ہی ملبے کا ڈھیر بنا چکا ہے لیکن اب اس نے ہسپتالوں کو بھی بخشا جس سے ہسپتال قبرستان میں تبدیل ہو چکے ہیں اس کے علاوہ کارپٹ بمباری ہو رہی ہے سفید فاسفورس کا استعمال کرکے انسانوں اور عمارتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔
تادم تحریر غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری جاری ہے۔اب تک سات ہزار سے زاہد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہسپتالوں میں طبی سہولتیں مکمل طور پر ختم ہوچکی ہیں۔
اب تک تین ہزار سے زاہد بچے اور 1700 سے زاہد خواتین شہید ہو چکی ہیں۔ اسرائیلی دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار معصوم بچے ہو رہی ہیں جبکہ حملوں میں زخمیوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاویز کر گئی ہے۔ جبکہ بچوں سمیت 1650 فلسطینی لاپتا ہے، عام۔خیال یہ ہے کہ لاپتا افراد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
ارضِ فلسطین لہو لہو ہے۔ 57 اسلامک ممالک صرف مزمت تک محدود ہیں اور کچھ نہیں… تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام ہو رہا ہے۔
یہاں پر سوال یہ ہےکہ ستاون اسلامی ممالک یا اور تیس اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج جس کی سربراہی جنرل راحیل شریف کر رہے تھے ان کا وجود کس لیے ہے…؟
سات اکتوبر سے ہنوز، صہیونی فوج ہر شجر، ہجر اور بشر کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ غزہ کےنہتے فلسطینیوں پر آگ برس رہی ہے بچے بوڑھے، جوان و خواتین کوئی تمیز نہیں۔ اسرائیل کی طرف سے مسلسل حملے جاری ہیں۔ شہر ملبے کا ڈھیر ہر طرف نعشیں اور زخمی ہیں پانی، بجلی اور خوراک نہیں ہے، اب چوتھا ہفتہ شروع ہو چکا ہے اسرائیل ہر گزرتے دن کے ساتھ نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کی سرعام نسل کشی کر رہا ہے لیکن نہ اقوام متحدہ نہ سلامتی کونسل اور نہ کوئی اور پلیٹ فارم اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہے اب تک شہید اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے لاکھوں مسلمان بے گھر ہو چکے ہیں شہر کے شہر مٹا دیے گئے ہیں امت مسلمہ صرف احتجاج اور بددعاؤں تک رکی ہوئی ہے
مجال ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں سے کوئی ایک بھی ملک آگے بڑھ کے اسرائیل کا ہاتھ ہاتھ پکڑے اور اپنے غیرمند ہونے کا ثبوت دے اس کے بجائے ہر ملک عملی قدم کے بجائے مذمت اور مطالبات میں جتی ہوئی ہے کہ کہیں اسرائیل کی جنگ کا رخ ہماری طرف نہ ہو جائے
پوری دنیا یہ المناک تماشہ برسوں سے دیکھ رہی ہے مگر خاموش ہے انسانی حقوق کی پاسداری کا راگ الاپنے والے ملک اور بین الاقوامی تنظیمیں بے بس اور مجبور ہیں۔کس قدر دل کو دہلا دینے والے اور کربناک وہ مناظر ہوتے ہیں جب معصوم فلسطینی بچے ہاتھوں میں پتھر لئے اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر پھینکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ پتھر ان ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور وہ ہمہ وقت اِن گنوں، توپوں اور ٹینکوں کی زد میں ہیں، مگر پھر بھی ان کے جذبہ استقلال اور جذبہ حریت میں فرق نہیں پڑتا۔اس غزہ کی پٹی میں رہنے والے بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع ہے۔
اگر یہ آگ نہ روکی گئی تو یہ جنگ پھیلے گی اور یہ بہت سے مسلمان ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔یہ جنگ اب فیصلہ کن نظر آ رہی ہے۔ اس میں فلسطینیوں کا بھاری جانی و مالی نقصان تو نوشتہ دیوار ہے ہی، مگر اسرائیل کو بھی اسکی قیمت چکانی ہوگی۔ مسلمان خصوصاً عرب ممالک کے اندر سے آوازیں اُٹھیں گی، ایک لہر اٹھے گی جو بہت کچھ بہا کر لے جائے گی۔ وہی بچے گا جو اس وقت تاریخ کی صیح اور درست سمت میں کھڑا ہو گا۔یہ مظلومیت اور سسکتی ہوئی انسانیت کو بچانے کا وقت ہے۔ یہ عمل اور تحرک کا وقت ہے۔ یہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا وقت ہے جن کے پاس نہ کھانے کو نہ پینے کو کچھ ہے۔ وہ سرنگوں میں گھسے بیٹھے ہیں اور اوپر سے بم برس رہے ہیں۔ ساٹھ سے زائد اسلامی ملکوں میں سے کوئی تو ہو جو ان مظلوموں کا چارہ گر بنے، جو ان کی امیدوں کا محور ہو، جو ان کے ساتھ کھڑا ہو۔ کوئی تو ہو۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-