پرانے وقتوں میں بزرگوں سے اکثر سنتے تھے کہ یہ دنیا رنگ برنگے لوگوں سے بھری ہوئی ہے. دنیا میں بسنے والے لوگوں کی شخصیت دو رخی یا سہ رخی عام سی بات ہے ۔ہر بندے کے کئی روپ ہوتے ہیں اور اصل شخصیت کچھ ہوتی ہے نظر کچھ اتی ہے ۔ان وقتوں میں بڑوں سے بحث کرنا یا ان سے اختلاف کرنا معیو سمجھا جاتا تھا ،اس لیے اس بات کی سمجھ بھی نہیں اتی تھی اور پوچھ بھی نہیں سکتے تھے۔ بہرحال سوچتے تھے ضرور تھے کہ یہ بزرگ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر جن کا کوئی مقصد ہی نہیں ۔بھلا کسی بھی انسان کے دو یا تین روپ کیسے ہو سکتے ہیں، یا وہ جیسا ہے ویسا نظر کیوں نہیں آتا بلکہ اس کے الٹ کیوں نہ نظر اتا ہے۔ ایسی باتوں کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی تھی۔ جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو رفتہ رفتہ یہ گرہیں کھلنا شروع ہو گئیں اور معلوم ہوا کہ بزرگ پھر بھی ہلکا ہاتھ رکھ جاتے تھے
آج کے دور میں عملی طور پر ایک شخص کئی رخ رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر عرصہ 10 سال سے ہمارے پاس ایک باریش اور نورانی شکل و صورت اور بارعب شخصیت کے مالک بابا جی آتے تھے ،جن کی ظاہری شکل و صورت ایک خدا ترس اور عالم دین بندے کی سی تھی۔ اکثر وہ مسجد کی تعمیر کیلٸے چندہ لینے آتے کہ انکے گاٶں میں مسجد بن رہی ہے،حسبِ توفیق حصہ ملاٸیں۔ کبھی مدرسے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے آتے تھے کہ میں ایک مدرسے کا منتظم ہوں،مدرسے میں غریب بچے دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ غریب بچوں کی دینی تعلیم حاصل کرنے میں انکی امداد کریں، انکی دینی تعلیم کے سبب آپ کے اور آپکے بزرگوں کے گناہ بخش دیے جاٸیں گے اور اسکا اجر بھی آپکو ملتا رہے گا۔ کبھی کبھی کسی غریب مستحق اور نادار مریض کی تصویر لیے کر آجاتے تھے کہ اس کا علاج کروانا ہے آپ لوگ حصہ ڈالیں۔مریض صحت یاب ہوگا،تکالیف سے نجات پاٸے گا تو آپکے حق میں دعا کرے گا۔ مسکین مریض کی دعا اللہ پاک رَد نہیں کرتا۔ کبھی کسی غریب شخص یا کسی بیوہ کی یتیم بچی کے جہیز کا کہتے کہ غریب یا یتیم بچی کا فرض ادا کرنے میں مدد کریں،اللہ پاک اسکا بہت بڑا اَجردیگا۔ ہم بھی ان کی شکل و صورت دیکھ کر ان کی باتیں سن کر اللہ کے نام پر حسب توفیق جو کچھ ہوتا دے دیتے۔ ہم اس بزرگ کی بہت عزت کرتے تھے کہ اس بزرگ نے اپنی زندگی اللہ تعالی کے بندوں کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ کبھی مسجد کے لیے چند اکٹھا کرتے ہیں تو کبھی مدرسے کے لیے اور کبھی کسی غریب مریض کے لیے یا کسی غریب کی بچی کے جہیز وغیرہ کے لیے۔ یہ کافی عرصہ سے چلا ا رہا تھا ،اور شاٸید ابھی نہ جانے کب تک یہ سب جاری رہتا اگر ایک مسٸلہ درمیان میں نہ آتا۔ دراصل پچھلے دنوں ہمارے علاقے کی ایک بیوہ عورت بیمار ہو گئی ۔ہم نے اپنی حیثیت کے مطابق اس کا علاج کروانے کی کوشش کی، لیکن ان کے علاج کے لیے زیادہ رقم کی ضرورت تھی۔ اتفاقا ایک دن بابا جی صاحب آگئے، میں انہیں لے کر اس بیوہ عورت کے گھر گیا، اس کے حالات بتائے اور بتایا کہ اسے بھی آپ کی مدد کی ضرورت ہے ۔ بابا جی نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھا کہ انشاءاللہ میں اس غریب عورت کا علاج ضرور کرواؤں گا ۔ایک ہفتے بعد میں دوبارہ اس عورت کے گھر گیا تو پتہ چلا بابا جی نہیں آٸے۔ اسی طرح ہوتا رہا تقریبا ایک مہینہ گزر گیا بابا جی کا کوئی آتا پتہ نہیں۔ پریشانی ہوئی کہ بابا جی کو کیا ہو گیا، ایک تو اس بیوہ عورت کا علاج رکا ہوا تھا، دوسرا بابا جی کی گمشدگی بھی پریشان کر رہی تھی ۔ گھر میں بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ میرے بیٹے کے موبائل میں ان کی تصویر موجود ہے۔
میں نے وہ تصویر اپنے مقامی وٹس ایپ گروپوں اور دوستوں،عزیز واقربإ میں شیئر کی تو پتہ چلا وہ کافی جگہوں سے مسجد ،مدرسے ۔غریبوں کے علاج معالجے اور غریب بچیوں کے جہیز کے نام پر کافی عرصہ سے چندہ اکٹھا کر رہے ہیں، ہم نےمزید معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ مختلف علاقوں سے کافی سارے پیسے ہر سال اکٹھا کرتے ہیں۔ لیکن کہاں خرچ کرتے ہیں، اس بات کا کوئی پتہ نہ چل سکا ۔تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کی تصویر لے کر انکے بارے میں جاننے کیلٸے کوشش شروع کردی۔جہاں بھی جاتے پتہ چلتا یہاں سے بابا جی چندہ تو اکٹھا کرتے ہیں، کہاں پہ خرچ کرتے ہیں کچھ معلوم نہیں۔ کچھ دنوں کے بعد وٹس ایپ گروپ ایڈمن کی معرفت مجھے ایک میسج موصول ہوا ،جس میں بابا صاحب کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہوا تھا۔ یہ میسیج پڑھ کر مجھے یقین نہ آیا کہ بابا صاحب ایسے ہو سکتے ہیں۔ اپنے ایک دوست کو ساتھ لیا اور اس میسج میں لکھے ہوئے پتے پر پہنچ گئے۔ میسج بھیجنے والے کو بتائے بغیر وہاں سے بابا جی کے بارے میں اور میسیج بھیجنے والے کے بارے میں معلومات لیں تو حیرت زدہ رہ گئے ۔ بابا جی نہ تو کسی مسجد کو چلا رہے تھے نہ کسی مسجد کی تعمیر میں حصہ ملا رہے تھے اور نہ کسی مدرسے کو فنڈز دے رہے تھے ،نہ ہی انکا کوٸی مدرسہ تھا۔ اور نہ ہی کسی کو کبھی کوئی ایک روپیہ تک امداد کی صورت میں دیا ہے۔ ہم نے کچھ اور لوگوں سے بھی معلومات لیں تو پتہ چلا کہ بابا صاحب کاروبار کوئی نہیں کرتے۔ لیکن زندگی امیروں والی گزار رہے ہیں۔ ان کے علاقے کے لوگ خود اس بات پر حیران تھے کہ بابا جی کے پاس اتنے پیسے آ کہاں سے رہے ہیں کہ اتنی اچھی کوٹھی بھی بنائی ہوئی ہے اور بظاہر زندگی بھی بہت اچھی گزار رہے ہیں ۔ساری معلومات لینے کے بعد میں نے میسج بھیجنے والے کو کال کی تو وہ ہمیں ملنے اگیا۔ میں نے اس کو اس کے میسج کے متعلق بتایا کہ یہ سب کچھ آپ نے لکھا ہے اس کا کیا ثبوت ہے تو اس بندے نے مجھے کچھ وہاں رہنے والے اور بابا جی کے رشتہ داروں سے ملوایا۔ سب کا یہی کہنا تھا کہ بابا جی صرف شکل سے ہی نیک نظر آتے ہیں باقی کوٸی بھی عمل اچھا نہیں۔یہاں تک کہ وہ اپنے گھر کے ساتھ موجود مسجد میں نماز بھی صرف عید کے عید پڑھتے ہیں۔ بندے بندے کے مقروض ہیں۔ اور بھی بہت کچھ سننے کو ملا۔ یہ سب سن کر کچھ شک تو ہوا بابا جی کے بارے میں۔ لیکن یہ باتیں پوری طرح سچ نہ سمجھیں۔ ہم نے یہی سمجھا کہ رشتہ دار یا علاقے کا ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اس بزرگ سے بدظن ہیں یا اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہمیں شش و پنج میں پڑا دیکھ کر وہ میسج کرنے والا ہمیں لے کر بابا جی کے گھر پہنچ گیا ۔وہاں جا کر دیکھا تو بابا جی سوئے پڑے تھے۔ انہیں جگایا، ہمیں اچانک وہاں اپنے گھر دیکھ کر بہت پریشان ہو گیا۔ خیر دعا سلام ہوئی ۔میں نے بابا جی سے کہا کہ آپ کے ذمے ایک عورت کا علاج لگایا تھا ۔آپ تو کہیں گم ہی ہو گئے ۔بابا جی جلدی سے بولے کہ نہیں بیٹا میری طبیعت خراب تھی اس لیے نہ ا سک یہ سن کر جس ادمی نے مجھے میسج کیا تھا اس نے بابا جی کے سامنے کہا کہ یار یہ کون سا بابا جی ہے، یہ تو ٹھگ ہے ،یہ نہ کوئی مسجد کے لیے چندہ اکٹھا کرتا ہے نہ کسی مدرسے کے لیے اور نہ ہی کسی غریب کا کوئی علاج کیا ہے نہ کسی بیٹی کے کسی غریب کی بیٹی کو جہیز لے کر دیا ہے۔ یہ آپ لوگوں کے لیے علاقے سے چندا اکٹھا کر کے خود کھا جاتا ہے اور یہاں اس نے مشہور کر رکھا ہے کہ میں دوسرے علاقوں کی مسجدوں میں بطور خادم خدمات انجام دیتا ہوں تو وہاں کے لوگ میری مدد کرتے ہیں یہ سب سن کر بابا جی شرمندہ شرمندہ سے دکھائی دینے لگے ۔ اس آدمی نے کہا کہ اگر یہ کسی مسجد کے لیے چندہ اکٹھا کرتا ہے، کسی مدرسے کے لیے ،کسی کے علاج کے لیے یا کسی کی بیٹی کے جہیز کے لیے تو ہمارے ساتھ چلے اور ہمیں بتائے،ہمیں وہ مسجد،مدرسہ یا غریب دکھائے۔ لیکن یہ باتیں سن کر بابا جی آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ اس بندے کی اونچی اور غصے بھری باتیں سن کر بابا جی کے ہمسائے بھی اگئے سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ یہ صرف شکل و صورت دین دار بندے کی بنائی ہوئی ہے حقیقت میں یہ منافق اور دھوکے باز ہے ۔یہ مختلف علاقوں سے مسجد، مدرسے اور غریبوں کے نام پر چندہ اکٹھا کر کے لے آتا ہے اور خود خرچ کر لیتا ہے یا اپنے بچوں پر خرچ کرتا ہے ۔یہ تو نماز نہیں پڑھتا، مسجد میں چندہ کہاں سے لگائے گا یا کسی مدرسے میں کہاں سے دے گا ،یہ بھی معلوم ہوا میسیج کرنیوالا بابا جی کا بھتیجا اور باباجی کی بیٹی کا دیور تھا،اور باباجی کے کرتوت جانتاتھا،اپنے والد، بھاٸی اور بھابھی کو بابا جی کے کارنامے بتاتا تھا ۔ ان سب کو بھی شک تو تھا کہ مسجد کے خادم کو اتنی امداد نہیں ملتی ۔لیکن چندے اکٹھے کرنیکا پتہ نہیں تھا۔ انکی سوچ تھی کہ بطور مسجد کے خادم کے اسنے کسی امیر بندے کو اپنی غربت کا سنایا ہوگا تو اسے امداد ملتی ہوگی۔
ان ساری معلومات کے بعد ہر بندے پر اعتبار نہیں رہا اب جو بھی باریش بارعب اور اچھی شخصیت کا حامل بندہ نظر آئے،تو میں مخمصے کا شکار ہوجاتا ہوں کہ کہیں یہ بھی اس بابا جی کی طرح نہ ہو۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-