پاکستان صوبہ سرحد کے ضلع ہزارہ سے 1947کی تقسیم کے وقت ہجرت کرکے انڈین پنجاب کے گاؤں امرگڑھ ضلع سنگرور میں آباد ہونے والے سردار رویل سنگھ کے گھر 23نومبر 1953میں پیدا ہونے والے سات بہنوں کے اکلوتے بھائی نامور فلمی ایکٹر رانا جنگ بہادر سنگھ نے پاکستانی پنجاب کے انٹرنیشنل کالم نگار و انٹریوونگارظفر اقبال ظفر کوانٹریوو دیتے ہوئے اپنی زندگی کے روشن پہلو بتائے۔
ضلع سنگرور میں بے شمار تاریخی داستانیں خاموشی کی چادر اوڑھ کر سو رہی ہیں جیسے رانا جنگ بہادر سنگھ کے گاؤں امرگڑھ کے پاس شہرملیر کوٹلہ جہاں پچاسی فیصد سے زائد مسلمان آباد ہیں انڈین پنجاب میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی کا یہ مقام سکھوں اور مسلمانوں میں تاریخی حسن سلوک کی مثال پیش کرتا ہے جہاں سکھوں نے مسلمانوں کو تقسیم ہند و پاک کے وقت ہجرت نہیں کرنے دی اور خود ملیرکوٹلہ شہرکی حفاظت و پہرہ داری کی زمہ داری سنبھالی سکھوں اور مسلمانوں کی محبتوں وفاؤں کی لازوال داستانوں پر تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر اس وقت ہم رانا جنگ بہادر کے کیے گے انٹریوو سے آپ کو جوڑنا چاہتے ہیں
ابتدائی تعلیم اور فیملی کے حالات کے بارے میں ہمیں بتائیں؟
والدصاحب سردار رویل سنگھ گردوارے میں گرنتھی تھے بہنوں کی پروش کا بوجھ باپ سے بانٹنے کے لیے نو سال کی عمر میں والد سے تبلہ سیکھ کر کیرتن کرنے پر مامور ہوگے گردوارے کے تمام انتظامی امور میں والد کے شانہ بشانہ رہتے مذہبی ماحول میں پروان چڑھے جوانی میں ایکٹر بننے کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے والد کے مذہبی مزاج کے خلاف جا کر اپنے بال کٹوالئے جس پر والد سردار رویل سنگھ نے رانا جنگ بہادر کو اپنے خواب پورے کی اجازت تو دے دی مگراپنے مذہبی وقار و مقام کو سلامت رکھنے کی غرض سے رانا جنگ بہادر کو امرگڑھ چھورنے کا حکم بھی دیا1981میں اپنا آبائی مقام چھوڑ کر ممبئی آ گئے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں امرگڑھ سے حاصل کی بی اے ملیرکوٹلہ سے ڈبل ایم اے پنجابی یونیورسٹی پٹالہ سے کیا آپ پنجاب میں کئی نوکریاں بھی کر چکے تھے آپ پنجاب پبلک ملٹری اسکول نابہ میں ٹیچر۔ پنجابی یونیورسٹی میں لیکچرار۔پبلک ریلیشن آفیسر۔ ٹوریزم ڈیپارٹمنٹ اور پنجاب گورئمنٹ پبلک ریلشین ڈیپارٹمنٹ کے زیرسایہ پنجاب ڈرامہ رپٹری کمپنی سے منسلک ہو کرشہر شہر گاؤں گاؤں فن کا مظاہرہ کرتے رہے مادری زبان پنجابی میں شاعری بھی کی ڈرامے لکھے پلے ڈائریکٹ کیے مقبول فل لینتھ فوک پلے بودی والا تارا کے نام سے لکھا جو1980 شائع ہوا پہلی فلم چن پردیسی تھی
ماں بولی پنجابی اور پنجابی کلچر کیا اہمیت سمجھتے ہیں؟
پنجابی زبان پر مجھے ہمیشہ فخر رہا میرا بولنا سوچنا اور خواب دیکھنا بھی پنجابی میں ہی ہوتا ہے میں گاؤں سے نکل آیا مگر گاؤں میرے اندر سے کبھی نکل نہیں پایا۔ پنجابی مجھے میری ذات سے جوڑ کر رکھتی ہے اور زبانیں بھی آتی ہیں مگر ان میں وہ اپنانیت محسوس نہیں ہوتی جو پنجابی سے ہوتی ہے۔میں ہر پنجابی سے گزارش کروں گاکہ زندگی کے کسی بھی کامیاب مقام پر پہنچ جائیں مگر اپنی مادری زبان پنجابی سے فاصلے مت پیدا کریں اپنے بچوں کو پنجابی سے لکھنا پڑھنا بولنا لازمی سیکھائیں اور پنجابی کے فروغ پر اپنا فرض ضرور ادا کریں پنجابی زبان آسمانی کیفیت کو محسوس کروانے کی خاصیت رکھتی ہے۔
پنجاب کی دوحصوں میں ہونی والی تقسیم پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
انڈیا پاکستان کی تقسیم میں سب سے زیادہ قتل عام پانچ دریاؤں کی دھرتی پنجاب کی زمین پر ہی ہوا سب سے زیادہ قربانی پنجابیوں نے دی اور سب سے بڑی ہجرت بھی پنجابیوں کی ہوئی پنجاب کے سینے پر باڈر کی دیوار نے پنجاب کو دوحصوں میں بانٹ دیا اس کے باوجود پنجاب دوبھائیوں کی طرح آپس میں محبت کا رشتہ رکھتا ہے پنجابی بولی نے مذہب کی تفریق کیے بنا پنجابیوں کو زبان کے رشتے میں جوڑے رکھا سیاست نے لوگوں کے درمیان فاصلوں کا کام کیا ہر ملک کی فارن پالیسی ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں پنجاب کے سیاسی حکومتی لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں بلاجواز رکاٹیں پیداکیں جس کی عکاسی میں شعر پڑھا کہ۔
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بڑی سوچ کے اُلجھائی ہے
دونوں پنجابوں میں ویزہ پالیسی میں نرمی و آسانی کے ساتھ شک شعبہ ختم کرکے قانونی دائرے میں آنے جانے اور کاروباری معاملات کو فروغ دیا جائے تودونوں طرف سے معاشی حالت بہتر اور ملکی تعلقات خوشگوار ہو جائیں گے ہم دوست توبدل سکتے ہیں مگر ہمسائیے نہیں بدل سکتے ہمارے پاس. عزت محبت امن کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا۔
انڈین پنجاب اور پاکستانی پنجاب کے اداکاروں کے اکٹھے کام کرنے کو کیسا دیکھتے ہیں؟
پچھلے پانچ سالوں سے دونوں پنجابوں کے اداکاروں کے اشتراک سے بننے والی پنجابی فلموں نے دنیا بھر میں بسنے والے ہر مذہب کے پنجابیوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے بڑا بزنس کیا عوامی پسندیدگی اس اقدام کو سراہے جانے کی دلیل ہے جبکہ ہرپنجابی فلم انڈیا پاکستان سے باہر دوسرے ملکوں میں بنتی ہیں اوراصلی پنجابی اور مصنوعی پنجاب دیکھایا جاتا ہے جبکہ اگر یہی حقیقی پنجابوں کی دھرتی پر بنیں تو روح کے ساتھ جڑے نظارے زیادہ منظر عام پر آئیں دوسرا انڈین پنجابی فلم انڈسٹری کی طرف سے بننے والی فلموں میں پاکستانی پنجاب کے اداکاروں کو کاسٹ کر لیا جاتا ہے مگر پاکستانی پنجابی فلموں میں انڈین پنجاب کے اداکاروں کو کاسٹ نہیں کیا جاتا اگر پاکستانی فلمیں بھی بیرون ممالک میں جاکربنیں تو اس میں انڈین پنجاب کے اداکار ضرورکام کرنا پسند کریں گے پاکستانی پنجاب میں بہت اچھے سکرپٹ لکھے جاتے ہیں جن میں ناصر ادیب صاحب جیسے تاریخ ساز لکھاری موجودہیں جو پنجابیت اور انسانیت کے جذبات کی ترجمانی کا فن رکھتے ہیں آرٹسٹ کسی قوم کانہیں ہوتا نا تقسیم شدہ نہیں ہوتا ساری دنیا کے انسانوں کا سانجھا ہوتا ہے جو اپنی ذاتی زندگی سے باہر نکل کراپنی اداکاری میں معاشرے کی زندگی کا روپ دھارتا ہے۔دونوں پنجابوں کے آرٹسٹ عام عوام کی طرح ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں جان وارتے ہیں اور یہ مقصد رکھتے ہیں کہ پیار محبت امن کا جذبہ فروغ پائے پنجابی کلچر کی ترویج سے دنیا میں خوبصورت رنگ بھرے جا سکتے ہیں مجھے بڑا یقین ہے ایک دن وہ وقت ضرور آئے گا جب مسائل ختم ہونگے۔ظفر صاحب یہ زمانہ لڑائیوں علیدگیوں کا نہیں ہے حکومتوں کو اپنے لوگوں کے دلوں کی آوازوں کو سننا ہوگا انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب ایک دوسرے ملکوں کی عزت و قدر کرکے محبت و امن کو اپنانا ترقی کی مجبوری بن جائے گا سسٹم کے اندر اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو قانون کے دائرے میں احترام انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا فرض سمجھتے ہیں۔
مسلمان کردار اتنے اچھے کیسے ادا کر لیتے ہیں؟
ملیر کوٹلہ کی تاریخ میں درج ہے کہ سکھوں کے دسویں گرو شیریں گرو گووند سنگھ کے چار صاحبزادے تھے جن میں دوصاحبزادوں کو صوبہ سروند نے وزیر خانے کی دیواروں میں چنوا دئیے تھا اُس وقت جب ان پر کیس چل رہا تھا تو ملیر کوٹلے کے مسلمان نواب شیر محمد خان نے حکومتی نظریات سے اختلاف کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اسلام عورتوں اور بچوں پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور وزیر خان کو پیغام دیا کہ تم ان کے باپ سے اختلاف رکھو مگر بچوں کو کچھ مت کہوں اور وزیر خان کے ظلم سے الگ ہو گے جب اس بات کا علم شیریں گووند سنگھ کو معلوم ہوا تو انہوں نے مسلمانوں کے شہر ملیر کوٹلہ کو دعا دی کہ یہ شہر یاحیات آباد رہے گا آج ساڑھے تین سو سال بعد بھی ملیر کوٹلہ میں مسلمان امن سکون سلامتی کی زندگی جی رہے ہیں یہاں کوئی قتل و غارت دہشتگری یا دوسرے جرائم نہیں ہوتے جو مسلمانوں کے شہر ملیر کوٹلہ کی بدنامی کا باعث بنیں 1947میں سکھوں نے ملیر کوٹلہ کے چاروں طرف حفاظتی حصار باندھ دیا تھااور اعلان کیا کہ مسلمانوں کی طرف آنے والی ہر گولی ہمارے سینے سے گزر کر جائے گی اور مسلمانوں کو ہجرت کی تکلیف سے بچاکر اپنے وجود کا حصہ بنا کر اسی شہر میں بسائے رکھا آج وہاں کے مسلمان پڑھے لکھے زمین جائیداد والے اچھے مستقبل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ملیر کوٹلہ اب ضلع بن چکا ہے اور یہاں مسلمان ہی الیکشن جیت کر وزارت و منسٹری تک پہنچتے ہیں میں نے یہاں سے گریجویشن کی تھی میرے مسلمان دوست کلاس فیلو اظہر علی خان شوکت علی غلام صابر جن کے گھروں میں اپنے گھر کی طرح جا کر کھانا پینا عزت پیار لینا دیناہوتا تھامیں ان کے ساتھ مسلم کلچر کو جی چکا ہوں اس لیے وہ میرے اندر بستا ہے اور میں فلموں میں مسلم رول میں حقیقت کے رنگ آسانی سے بھر لیتا ہوں جیسے لوگ پسند کرتے ہیں اورمجھے خوشی ملتی ہے میں نے فلم سردار محمداور ارداس کراں میں دینو لاہوریا کے مسلم کریکڑ کرکے سینما میں بیٹھے لوگوں کو جذباتی اداکاری سے رولا یا بھی ہے۔
پاکستانی پنجاب صوفی شاعروں کی دھرتی ہے ان کے کلام اور مقام کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
میں نے اردو بھی پڑھنی لکھنی سیکھی اردو ادب سے گہرا لگاؤ ہے کچھ کتابوں نے مجھے اردو سیکھنے پر مجبور کیاچھ ہزار سے زائد کتابیں پڑھ چکا ہوں اردو اک خوبصورت اور متاثر کن زبان ہے جس نے مجھے فلموں میں پرکشش اندازسے ڈائیلاگ بولنے میں مدد دی مگر پنجابی منفرد اہمیت کی حامل ہے پنجابی صوفی شاعرہوں یا مذہبی شاعر ہوں سب نے اصلاح کے پیغام والے کلام تخلیق کیے انسانوں کو جینے کی شاندار راہیں دیکھائیں برائیوں کے نقصان کن نتیجے سے باخبر کیا تاکہ لوگ غلطی کرکے مال جان اور عزت کے نقصان سے بچ سکیں بابا گرو نانک صاحب بابا فرید بابا بلھے شاہ بابا وارث شاہ جیسی عظیم ہستیوں نے پنجابی کلام کو وہ عروج بخشا کہ فیض احمد فیض صاحب جو پنجابی شاعری چھوڑ کر اردو کی جانب چلے گے ان سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ پنجابی کے عظیم صوفی شاعر وہ کلام پیش کر گئے ہیں کہ اب ان جیسا کوئی دوسرا شاعر جنم نہیں لے سکتا۔ پنجاب کے عظیم صوفی پیر فقیر شاعروں نے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی وہ ترجمانی کی کہ لوگ ان کی شاعری میں اپنے جذباتوں کا اظہار کرتے ہیں میں ان سب کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں۔
معزز قارئین میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں نے رانا جنگ بہادر سنگھ سے تھوڑے وقت میں بہت زیادہ عزت وپیار سمیٹا ہے انہوں نے کبھی مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ وہ کوئی آسمانی مخلوق ہے جو زمین کے انسانوں سے فاصلے رکھتے ہوں۔ تھوڑی سی عزت و محبت کوبھی اضافے کے ساتھ واپس دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں ان کی نظروں پر اجنبیت کی عینک نہیں رہتی بلکہ ان کی نیلی آنکھیں سب کو اپنا دیکھانے کی طاقت رکھتی ہیں وہ مذہبی شدت پسند نہیں ہیں بلکہ ہر مذہب و قوم کے انسانوں کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی مذہب انسانیت دشمن نہیں ہوتا نا کسی مذہب کے لیڈر و راہنما نے مذہب کے نام پر انسانوں سے نفرت ولڑائی کرنے کا پیغام دیا ہے غلط فہمیوں کو محبت و پیار سے دور کرکے اپنے نظریات و حقائق سے آگاہ کرنا ہی مذہب کے ترجمانوں کا شیوہ ہوتا ہے۔غلط فہمی کبھی بھی بے ادبی نہیں ہوتی بلکہ لا علمی ہوتی ہے۔وہ امن و اصلاح پسند انسان ہیں ایک اداکار کو دنیا کے ہر کونے سے رزق آتا ہے اورلوگوں کی پسندیدگی اور پیار ہی ان کے فن کی زندگی ہے۔ انسانوں میں بہت سے اداکار ملتے ہیں مگر اداکاروں میں انسان کم کم ہی ملتے ہیں اور جب بھی مجھے کوئی ایساانسان ملتا ہے جس کے دل میں آپ کے لیے پیار محبت احترام چھپا ہوتا ہے تو میں اس کاانٹریوو کرکے آپ کی امانت آپ تک پہنچانا اپنا قلمی فرض نبھانا سمجھتا ہوں
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-