پٹواری و تھانہ کلچر کا خاتمہ ایک چیلنج یا خود ساختہ چیلنج —-

پٹواری وتھانہ کلچر کے راج کا خاتمہ ہمارے ملک میں ’دھوتی کی بجائے پتلون پہنانے‘ جیسا ہے۔

بدقسمتی سے 1947ء سے لے کر اب تک ہمارے ملک میں بد دیانتی میں آئے روز اضافہ ہوا ہے۔ یوں تو ہمارے ملک میں ہر ادارے میں مفاد پرستی،رشوت خوری، کام چوری اور کرپشن کا کلچر عام ہے۔جس کے باعث پاکستان جس کا بدعنوانی میں دنیا کے 180ممالک میں 120واں نمبر ہے۔ یہ مافیا ملک کے ہر کونے میں اپنے شکجے گاڑ چکا ہے، ویسے تو پاکستان کا ہر ادارہ  اپنی مثال آپ ہے مگرپٹوار کلچر سب سے زیادہ بدنام ہے جس میں شامل راشی اہلکاروں کی شرح دوسرے محکموں کی نسبت بہت زیادہ ہے اس حوالے سے اکثر لوگوں کی زبانی یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ رشوت نہ لینے والے شخص کا اس محکمے میں کوئی کام نہیں۔ ایک غریب آدمی کو اگر چھوٹے سے مکان کا مقدمہ لڑنا پڑ جائے تو اس کی شروعات ہی پٹواری سے ہوتی ہے اور اس نظام کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ماضی کی کئی حکومتوں کی طرف سے اس کلچر کو ختم کرنے کی کوششیں بیکار ثابت ہو چکی ہیں. وہ اس لیے کہ انہیں حکمران طبقوں، وڈیروں، زمینداروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی امان حاصل ہوتی ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی دیکھیں کہ یہاں کبھی خود مختار مقامی حکومتیں بن ہی نہ پائیں۔ آج مہنگائی کی چکی میں پسا عام آدمی دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے، بجلی و گیس جیسی بنیادی سہولیات کے محکموں میں بھی اندھیر نگری چوپٹ راج ہےکچہریوں کا پٹواری نظام، تعمیرات، رجسٹریشن اور نقشے پاس کروانے کا طریقہ کار بھی رشوت زدہ ہے۔ملک میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کلچر لینڈ مافیا کا روپ دھار چکا ہے، جن میں لوگوں سے لوٹ مار کے ساتھ عدم منصوبہ بندی کے باعث زرعی زمینوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہاں پولیس اور پٹواری کی بدعنوانی کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔
نوآبادیاتی دور کا پولیس ایکٹ 1861 پولیسنگ کا ایک مؤثر اور مضبوط نظام تھا لیکن اس میں بھی چھیڑچھاڑ کرکے اور سیاسی اثرورثوق کے باعث پولیس کو مادر پدر آزاد کر دیا گیا ہے- پولیس جہاں امن و امان لے لیے حکومت کا بازو بنی وہاں اس سے تھانہ کلچر نے جہنم لیا ۔مقامی جاگیرداروں اور زمین داروں کے ذریعے عوام کو پُرتشدد طریقوں سے خوف میں مبتلا رکھنا اور رشوت اور اقربا پروری میں اضافہ ہوا ۔یہ سب ڈپٹی کمشنر ،کمشنر ،انسپکٹر جنرل اور سپرنڈنٹ پولیس اور تھانے دار چلتا رہا اور چل رہا ہے آج بھی نام بدل گئے نئے پولیس قوانین کے ذریعے ہوا پٹوار کلچر سیاسی پاریٹوں میں حصہ دار بن گیا
اور اب حال یہاں تک آپہنچا ہے کہ پٹواریوں نے تحصیل کی بجائے پرائیوٹ آفیسز کھول رکھے ہیں جہاں وہ لوگوں کو لوٹ رہے ہیں مگر یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس کی پشت پناہی کہاں سے ہو رہی ہے

مگر اب پانی سے سے اونچا ہو گیا ہے،کرپشن اور لینڈ مافیا کے بڑھتے واقعات پر پنجاب ہائیکورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی اینٹی فساد کی ہدایت کی کہ وہ نجی پیپلز کی مدد سے کام کرنے والے پیٹیوں کے خلاف مقدمات درج کریں. ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دنیا میں پاکستان کی تصویر صرف شفافیت قائم کرنے اور ہماری ثقافت کے ایک حصے کے طور پر بدعنوان کے خلاف مزاحمت کو بہتر بنا سکتی ہے. جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے چھ صفحے کے تحریری فیصلے جاری کیے. یہ فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ یہ بہت اداس ہے کہ اس طرح کے معاملات کی وجہ سے یہ ہے کہ پاکستان بدعنوان کے لحاظ سے سب سے اوپر ممالک میں سے ہے. عدالت نے سینئر رکن بورڈ آف آمدنی کو ہدایت کی ہے کہ مستقبل میں مستقبل کے عہد دائرے میں کام کرنے کے لئے کسی نجی شخص کو کام نہ کریں. اگر مستقبل میں ملوث کسی بھی پورتاری مل گئی ہے تو، ڈی جی انسداد فساد اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے. اگر کسی کو ڈی سی سمیت، ایک نجی خادم مقرر کرنے میں ملوث ہے، تو ڈی جی کو بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے. اس صورت میں، نوٹس کے سینئر رکن بورڈ آف ریونیو اور اسسٹنٹ کلیکٹر، ڈپٹی کلیکٹر اور کمشنر بہاولپور کو جاری کیا گیا تھا. تمام افسران نے عدالت کے بارے میں بات کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ریاست کرپشن اور اسمگلنگ میں معاونت کرتی ہے، پولیس کرائے کی پولیس بن گئی پولیس اور پٹواری کا شاہی سسٹم ختم ہونا چاہیئے، جس کی وجہ سے پولیس کی اب اپنی عزت نہیں رہی، اس ادارے کی عزت ہونی چاہیئے۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مندرجات ملاحظہ فرمائیں

Apart from that the written decision directed the DG Anti-Corruption to register cases against Patwaris working with the help of private peoples.

We must not forget that the image of Pakistan in the world can only be improved by establishing transparency and putting up resistance against corruption as a part of our culture. Justice Chaudhry Abdul Aziz issued a six-page written verdict.

It was said in the verdict that it is with great sadness that it is because of such cases that Pakistan is among the top countries in terms of corruption.

The court directed the senior member Board of Revenue not to allow any private person to work in the revenue circle in future.

If any Patwari is found involved in future, DG Anti-Corruption should take action against him.

If anyone, including DC, is involved in appointing a private servant with Patwari, then DG should take anti-corruption action.

In this case, notices were issued to the Senior Member Board of Revenue and Assistant Collector, Deputy Collector and Commissioner Bahawalpur. All the officers had nothing to speak about

The court granted bail to Patwari Rafiq Ahmed. The court granted bail to Patwari in exchange for bail bonds of Rs. 200,000.

لب لباب یہ کہ ہم ‘انتظامی آمریت‘ کے حامل نوآبادیاتی نظام سے تو نکل آئے‘ مگر آج ‘انتظامی تباہی‘ کی دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔ قوم کی آخری امید ‘تبدیلی سرکار‘ بھی نظام میں کوئی تبدیلی نہ لاسکی،اور عام آدمی رشوت ،سفارش اور غربت کی چکی میں پستا رہا ہے پولیس بھی سیاست زدہ ہوگئی ہے سول اور فوجی ادوار میں حکومتوں نے جہاں دیگر ریاستی اداروں کو تباہ کر دیا وہاں پولیس اور محکمہ پولیس اور محکمہ مال بدترین حالات کا شکار ہوئے عام شہری آج بھی محکمانہ سیاست اور جبر کا شکار ہیں۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-