محکمہ مال کا مالدار پٹواری!

یہ نظام جس میں پٹواری کو مرکزی حیثیت حاصل ہے،اکبر بادشاہ کے نورتن راجہ ٹوڈرمل کے ذہن کی اختراع ہے۔راجہ ٹوڈرمل نے جو ریونیو سسٹم رائج کیا اس میں انگریز بھی چھیڑ چھاڑ نہ کر سکا۔ فوجداری نظام تو لارڈ میکالے نے نافذ کر دیا لیکن ٹوڈرمل کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے! پٹوار کلچر کی باریکیوں کو تحصیل دار اور ڈپٹی کمشنرسے زیادہ سمجھنے والی شخصیت کا نام پٹواری ہے ۔پٹواری کی پہچان کرنے میں ذرا سی بھی دشواری پیش نہیں آنی چاہیے اس کے خدو خال نمایاں ہوتے ہیں جیسے کہ کان پر قلم، سنولائی ہوئی رنگت ، کملایا ہوا چہرہ، قدرے خم کھایا ہوا جسم، پاؤں میں ہوائی چپل، آنکھیں ایسی جن میں بیک وقت ذہانت ، شرارت، لالچ، اور تجسس ٹپکتا ہوا۔ اگر ہاتھوں میں جریب نہ بھی ہو تو کچھ یوں گمان ہوتا ہے جیسے پیمائش کر رہا ہو۔اسکے دفتر کو پٹوار خانہ کہتے ہیں۔ ایک ایسا نیم تاریک کمرہ جس میں کوئی میز ، کوئی کُرسی یا موڑھا نہیں ہوتا۔ ایک پھٹی ہوئی دری‘ چند دریدہ رجسٹر، گو فرش پر بیٹھ کر کام کرتا ہے‘ لیکن نگاہیں عرش پر ہوتی ہیں۔

پٹواری ایک قسم کا امرت دھارا ہے۔ صاحب لوگوں کا ڈیرہ چلاتا ہے۔ وزیروں کے دورے بھگتاتا ہے، سیاسی لیڈروں کے جلسے میں بندے لانا اس کے کار منصبی میں شامل ہے۔اس قدر اختیارات رکھنے والے شخص کی تنخواہ نہایت قلیل ہے۔پٹواری زراعت پیشہ افراد کا محبوب ترین فرد ہوتاہے۔ دیہاتوں میں پٹواری کا رتبہ کسی چودھری سے کم نہیں ہوتا ۔ قدرت اللہ شہاب ”شہاب نامہ ” میں لکھتے ہیں کہ ‘ایک روز ایک بے حدمفلوک الحال بڑھیاآئی۔روروکر بولی کہ اس کی تھوڑی سی زمین ہے جسے پٹواری نے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ہے،لیکن وہ رشوت لیے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ہے۔رشوت دینے کی طاقت نہیں۔تین چار برس سے وہ دفتروں میں دھکے کھارہی ہے،لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

اس کی دردناک بپتا سن کر میں نے اسے کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤں کے پٹواری کو جا پکڑا۔ڈپٹی کمشنر کو یوں اپنے گاؤں میں دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا شر انگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال کے بارے میں جھوٹی شکایتیں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی تصدیق کرنے کے لیے پٹواری اندر کمرے سے جزدان اٹھا کر لایا اور اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا”حضوردیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کہ قسم کھاتا ہوں۔”گاؤں کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا”جناب ذرا یہ بستہ کھول کر بھی دیکھ لیں”ہم نے بستہ کھول کر دیکھا تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر رجسٹر لایا اورسر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کردیا۔زمینوں کی ملکیت کے لئے تگ ودو ترقی پذیر ممالک میں ایک ایسا مشکل کام ہے جس سے نپٹنا نہایت ہی سردرد کا باعث ہوتا ہے خصوصاََ ایسے ممالک میں جہاں سر چھپانے کے لئے کسی چھت کا ہونا کسی بڑی نعمت سے کم نہ ہو۔

پٹوار کلچر اپنی افادیت اور اعتبار کھو کر کرپشن اور وقت کے ضیاع کی علامت بن چکا ہے۔اپنی جائز پراپرٹی کی ملکیت ثابت کرنے کے لیئے لوگ اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ لٹانے پر مجبور ہوتے ہیں۔غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کا خاتمہ”پاکستان میں زمین کے تنازعات سے متعلق لاکھوں کیس عدالتوں میں زیرالتواء ہیں۔ اس کی وجہ عدالتی نظام پر نہ صرف غیرضروری دباؤ بڑھتا ہے بلکہ یہ کیسز ضروری مقدمات کی راہ میں بھی حائل ہوتے ہیں۔یہ کئی کئی سال چلتے ہیں جس کے بعد بھی یہ گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ مسئلے کا پرامن حل نکل آئے گا۔روایتی طور پر پٹواری کا سارے عمل پر مکمل کنٹرول رہا ہے۔ زرعی ریونیو، ملکیتی ریکارڈ، زمین کی خرید و منتقلی اور تمام لینڈ ریکارڈ مرتب کرنے کی ذمہ داری پٹواری کی رہی ہے۔اس حاکمانہ اور مرکزی حیثیت نے پٹواریوں کا ان معاملات پر ایک طرح سے اجارہ قائم کر دیا جس سے انہیں زمین کے ریکارڈ سے متعلق معاملات میں اپنی مرضی کرنے اور دیہاتیوں سے رشوتیں وصول کرنے کے کھلے مواقع میسر آئے اور یہی بات پٹواری کے نام سے جڑے منفی تاثر کا سبب بنی۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضوری نہیں-