میڈیکل ٹیسٹ دوبارہ لینے کا فیصلہ

ہاں یہ سچ ہے کہ ہمارے مستقبل کے ساتھ ہر سال کھیلا جا رہا ہے۔یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سرکاری اور نجی اداروں کی بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے افسران اپنے آپ کو اس وقت تک افسر نہیں سمجھتے جب تک وہ کرپشن کے پیسوں سے اپنی جائیدادیں نہیں بناتے۔ میڈیکل یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کے داخلے کے لئے ٹیسٹ توں لئے جاتے ہیں مگر صرف نام کی خاطر توںں نہیں لئے جارہے.جس کی مثال اس سال ثابت ہونے والی میڈیکل ٹیسٹ میں کرپشن کی مثال یہ ہے کہ کاپیاں وقت سے پہلے جاری کر دی تھی، جس کا ثبوت ہر کسی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.۔ماضی میں بھی ایسی زیادتیاں ہوتی رہی ہیں۔ ماضی میں زیادہ دور نہ جائیں، چند سال قبل 2017 میں بھی اس قسم کی زیادتی ہوئی تھی، امتحان کی رات پرچہ خریدنے والوں کو ایک کمرے میں بلا کر پرچے دیے گئے تھے.اس وقت پرچہ بیس لاکھ تک گیا تھا۔ اس وقت بھی امتحانی طلبہ نے ہمت نہیں ہاری اور پریس کلب سمیت اہم سڑکوں، چوکوں پر احتجاج کرتے رہے لیکن ان طلبہ کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور آخر کار ان میں سے کچھ ڈاکٹر بن گئے۔

نوجوان اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے لیکن اس وقت کی سندھ حکومت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔اس وقت سندھ میں حکومت پیپلز پارٹی کی تھی جو معمول کے مطابق کرپشن پر خاموش ہوتی ہے.جب پھلی مرتبہ یہ زیادتی ہوئی تھی طلباء کے ساتھ 2017 میں اس سے لیکر آج تک ھر سال میڈیکل ٹیسٹ پر مضمون شائع کروانے کی کوشش کرتا ہوں ان سالوں میں، جہاں تک میں نے دیکھا ہے، میڈیکل میں داخلے کا ٹیسٹ صرف نام کا ہے کیونکہ پیسے والے لوگوں کو رات کو پر ے ملتے ہیں، لیکن وہ نوجوان جو چار سال سے محنت کر رہا ہے.جب وہ ایک نمبر سے رہ گیا کیوں کے سب سے پھلے اور دوسرے نمبر پر رشوت دینے والا آگیا ہے.پھر وہ محنت کرنے والے نوجوان مایوس ہو کر گھر چلا جاتا ہے۔اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سمیت دنیا کی سیکڑوں کہانیاں سنتا ہے، لیکن اس معاشرے کو کیا معلوم کہ ہم نوجوانوں کی محنت کی قدر نہیں کرتے، یہاں صرف پیسے کی قدر ہوتی ہے۔

پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے ایک ہی وقت اور ایک ہی دن پرچہ لیا گیا تھا، ایسا انتظام کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ڈیوٹی پر موجود سپروائزر سمیت طلباء بیہوش ہو گئے تھے۔لیکن اس دن سے آج تک نوجوان ایک بار پھر احتجاج کر رہے ہیں کراچی سے لیکر کشمور تک نوجوانوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ میڈیکل کے طلباء سے انصاف کروں اور دوبارہ ٹیسٹ لی جائے.بل آخر حکومت کو بھی جوش آیا جس نے نوٹس لیکر انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس نے انکوائری کرکے یہ بات ثابت کی کہ پرچہ وقت سے پھلے لاکھوں کی رشوت لیکر آئوٹ کیا گیا تھا. جس کے بعد نگران وزیراعلی نے دوبارہ ٹیسٹ لینے کا اعلان کردیا ہے.یہاں کچھ سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر کمیٹی انکوائری مکمل کر کے ثابت کردیا ہے کہ لوگ ملوث ہیں جنہوں نے پرچہ لاکھوں میں بیچا ہے. توں اس میں ملوث لوگ قانون کی گرفت میں کیوں نہیں آئے، انہیں آج تک بے نقاب کیوں نہیں کیا گیا، کیا وجوہات ہے جو وہ ابھی تک سامنے نہ آسکے ہیں.

ایک سوال عوام خود سوچے کہ دوبارہ ٹیسٹ سے نوجوانوں کو فائدہ ہو گا؟ کیوں کہ ابھی تک وہ مافیا بیٹھی ہے ان کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی ہے.میری رائے کے مطابق نوجوانوں کو انصاف نہیں ملے گا، پھر یہی لوگ پرچے جاری کریں گے تاکہ دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے کیونکہ ان کرپٹ لوگوں کو آج تک عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، سوچنے کا ایک اور مسئلہ ہے۔ جب دوبارہ امتحان ہوتا ہے تو اس میں وہ نوجوان رہ گیا جو پہلے پاس ہوا، اسے بدقسمتی کہی جائے یا کچھ اور، توں حکومت اس نوجوان کے لیے کیا اقدامات کرے گی، اگر ماضی میں حکومتیں اس پر نوٹس لیتی توں آج ایسا نہ ہوتا،ہمارے ملک کا مستقبل اس طرح روڈوں پر خوار نہ ہوتا.میں اس آرٹیکل کے ذریعے حکومت سے اپیل کروں گا کہ ان لوگوں کو سزا دی جائے جنہوں نے رشوت لیکر پرچے جاری کئے تھے. اور جن نوجوانوں نے ایمانداری اور محنت سے ٹیسٹ پاس کیا تھا دوسرے امتحان میں ان کے نتائج پر اثر ہوا کچھ مارکس کا توں پھر اس کے لئے حکومت کیا قدام اٹھائینگے اگر حکومت ان دو باتوں پر نوجوانوں کو آگاھ کریں تاکہ وہ دوسرا امتحان سکون اور آسانی سے دے سکے.

کالم نگار کی رائے سے ادارےکا متفق ہونا ضروری نہیں-