کل رات میں نے کیا دیکھا؟

کل رات نیند کی آغوش میں گم صم میں نے ایک ہولناک خواب دیکھا۔ جس نے مجھے تڑپا کر رکھ دیا اور خواب دیکھنے کے ایک گھنٹے تک خوف خدا سے میرا جسم مسلسل کانپتا رہا۔ مجھے بار بار یوں محسوس ہوا؛ جیسے میں سکتے کے عالم میں چلاگیا ہوں یا مجھ پر موت طاری ہوچکی ہے۔ بہرکیف اس قدر سنگین خواب تھا کہ میری آنکھوں سے رات بھر نیند اوجھل رہی؛ میں مسلسل خود کو برزخی دنیا کا فرد محسوس کرتا رہا۔ ہائے رہے یہ دنیا۔۔۔ ہائے! یہ اس کے فانی مزے۔۔۔ صبح سے اب تک میں سوچ رہا تھا کہ کیسی کیسی لذات میں پڑھ کر ہم آخرت کو سرے سے ہی بھول چکے ہیں۔ ہم بظاہر دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم نمازی ہیں لیکن کیا کبھی ایسا بھی سجدہ ہم کو نصیب ہوا جس میں ہم نے رب کی قدرت کو محسوس کیا ہو؟ بظاہر ہم کبھی کبھار عبادت کر بھی لیں تو کیا ہم نے اتنی تیاری کر رکھی ہے کہ ہم اپنے اعمال کی بدولت بخشش کی امید کرسکیں؟

ہم تو اس امید پہ گناہوں اور دنیاوی لذات میں پڑے ہوئے ہیں کہ اللہ ہمیں بےحساب معاف کردے گا۔ اگر بالفرض ہم بے حساب بخشنے کے امیدوار بننے بھی لگے تو جو ظلم و ستم ہم نے اس دنیا میں رہنے والے نبی دو عالم کے غمگین امتیوں پر کیے ہیں۔ کیا ہم یوں ہی عبادات کی بنیاد پر بغیر حساب بخشیں جائیں گے؟ حاشا و کلا ہرگز نہیں، توبہ توبہ کریں خود کو ملامت کیجیے۔ ہم نے جتنی سختیاں، جتنے ظلم نبی رحمت کی مہرباں امت پر کیے، ضرور ہمیں نہ صرف ان کی حرف بہ حرف پوچھ گچھ ہوگی، بلکہ پکڑ دھکڑ اور ملامت کے بعد یقینا کڑی سزا بھی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ نبی رحمت جس امت کےلیے روئے اسی امت کو آج ہم بھوکا پیاسا اور ننگا اور بدحال دیکھ کر اپنے اپنے محلات میں بیٹھ کر عیاشیاں کررہے ہیں اور ہم دعویدار جنت الفردوس اور بلاحساب مغفرت کے ہیں۔ امت کی بیٹیاں چند سو روپے کی خاطر جسم بیچتی رہی اور ہم عالیشان مساجد، مدارس اور فلاحی اداروں میں بیٹھ کر جنت کے مستحقین میں نام درج کرواتے رہے ہیں۔ نکاح کی جگہ زنا عام ہوتا رہا اور ہم بدکاریوں کو دیکھ کر بھی کہتے رہے چھوڑو جی اپنی آخرت کی فکر کرو؛ بس اللہ اللہ کیا کرو۔ ارے یہ کیسی فکر آخرت ہے جو تمھیں اپنے بھائی کی ذلت اور بھوک کو دیکھ کر بھی عار نہ دلا سکی۔ حالاں کہ مسلمان تو ایک جسم کی مانند ہیں کہ جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو پورا جسم درد سے چکنا چور ہو جاتا ہے۔

خواب کے آخری حصے میں نے دیکھا کہ میرے اردگرد زلزلے سے مکانات گر رہے ہیں۔ کوئی توبہ و استغفار کررہا تھا، کوئی ذکر کی تسبیح کر رہا تھا، کسی نے کلمہ شریف کو بلند کیا ہوا تھا، لیکن ایک سن بلوغت کو پہچاننے والی لڑکی کہ رہی تھی غورغشتی والے بھیا! ہم سچی میں اللہ پاک کے پاس جانے لگے ہیں؟ کیا ہمیں وہاں مفت میں روٹی ملی گئی ناں۔ کیا ہمیں وہاں کھانے کےلیے کوئی گالیاں اور طعنے تو نہ دے گا۔ میرے بھیا بولو ناں آپ خاموش کیوں ہو؟ کیا اللہ جی کی جنت میں ہمیں بھی گھر ملے گا ناں۔ کیا ہمیں وہاں پیسے بھی ملیں گے ناں جن سے ہم کھلونے خرید کر بچپن کے سارے ارمان پورے کر سکیں گے۔ ہم نے تو بچپن دوسروں کے گھروں میں بھوکا پیاسا رہ کر گزار دیا۔ کیا ہمیں کرایے کے مکان سے نجات ملے گی ناں؟ اچانک سے ہمارے آس پاس سے مکانات کی چھتیں گرنے کی آوازیں آنے لگتیں ہیں۔ ایک آخری جملہ ادا ہوتا ہے اور اردگرد کے در و دیوار ہل اٹھتے ہیں: “غورغشتی والے بھیا بولو ناں! ہم اللہ جی کے پاس جارہے ہیں ناں۔ اگر ہم بخشے گے تو کیا ہمیں وہاں روٹی ملے گی ناں۔ وہاں تو کوئی ہمارے جسموں کو کھانے کے بدلے نہیں نوچے گا ناں۔ بس آنکھ کھلتی ہے درد پھیلتا ہے خواب بکھرنے کی بجائے اور مزید گہرا ہونے لگتا ہے کہ اسی لمحے اذان کی آواز آنے لگتی ہے۔ میں وضو کرکے نماز پڑھنے کےلیے مسجد داخل ہونے لگتا ہوں تو ایک عمر رسیدہ باریش شخص مسجد کے غسل خانے سے نکلتے ہوئے اپنے ہم عمر سے کہ رہا تھا کیا لطف تھا یار! آج کی رات ہماری دوشیزہ پڑوسن نہیں: جیسے جنت کی پری تھی۔ محض پانچ سو روپے میں رات بھر کےلیے مان گئی۔ چلو نماز پڑھ لیتے ہیں لطف دوبالا ہونے کو ہے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-