افغان ٹرازٹ ٹریڈ’ پاکستان کیلئے پھر دردسر

ملک اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور  ڈیفالٹ کے کنارے پر کھڑا ہے۔معیشت پہلے ہی ذبو حالی کا شکار ہے دوسری طرف ملک میں دہشت گردی نے پھر سے سر اٹھا لیاہے۔ گزشتہ دنوں بارہ ربیع الاول کے روز مستونگ اور ہنگو میں دہشت گردوں نے بزدلانہ حملے کئے اور اب ملکی صورتحال اس وقت آگے کنواں اور پیچھے کھائی جیسی ہے اس صورتحال میں نگران حکومت کو اس وقت دو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ایک طرف دہشت گردی جس کا پاک فوج کے سربراہ نے پوری طاقت سے جواب دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔اور دوسری طرف معاشی بحران، دو اکتوبر کو سہ پہر اسلام آباد میں ہونے والی اس اہم ترین پریس کانفرنس میں نگران وزیر داخلہ نے پالیسی بیان میں جاری کیا کہ اب افغان ٹرازٹ کا نام پر صرف اور صرف تجارت ہی ہوگی ۔ بارہ ربیع الاول سے ایک روز قبل دورہ لاہور کے دوران صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں

آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر
تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے، کہ وہ اس تاریخ تک رضا کارانہ طور پر اپنے ملک واپس چلے جائیں اور اگر یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کر دے گے اور جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی، یکم نومبر کے بعد کوئی بھی شخص پاسپورٹ اور ویزا کے بخیر ہمارے ملک میں داخل نہیں ہو گا۔

نگران وزیر داخلہ کے مطابق وطن عزیز میں افغان مہاجرین کی تعداد اس وقت اندازاً 37 لاکھ سے متجاوز ہے، ان میں11 لاکھ افغان شہری غیر قانونی طورپر مقیم ہیں۔ 1989ء کے افغان جہاد کے بعد مہاجرین کی ایران اور پاکستان آمد شروع ہوئی ۔جذبہ اخوت اور مساوات کے تحت پاکستان نے کھلے دل سے افغان مہاجرین کو چھت فراہم کی ۔انہیں رہائش ،خوراک اور روزگار کے ساتھ بچوں کیلئے تعلیم وصحت کی سہولتوں کے چراغ بھی روشن کئے۔ اقوام متحدہ اور بڑے ممالک نے پاکستان کی طرف سے انسانی ہمدردی اور افغانیوں سے روا رکھے گئے خیر سگالی جذبے کی توصیف کی۔ آج پاکستان میں افغانیوں کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے یہ درست ہے کہ ایران نے افغان مہاجرین کو سرحد کے قریب کیمپوں سے آگے بڑھنے نہیں دیا، اس کے برعکس پاکستان میں افغان مہاجرین کیمپوں سے آگے بڑھے بلکہ بڑھتے گئے وہ صرف اسلا م آباد میں نہیں آزاد کشمیر ‘ گلگت وبلتستان سمیت پورے ملک میں پھیل گئے ۔ بے شمار افغان شہری کاروباری سرگرمیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ نادرا کی کمال مہربانی سے سرکاری دستاویز بھی حاصل کر چکے ہیں حالانکہ قوائد کے مطابق وہ شناختی کارڈ اور دیگر سرکاری کاغذات میں اندراج نہیں کراسکتے ۔ پاکستان کا کون سا ایسا شہر ہیں جہاں افغان شہری جائیداد کے مالک نہیں۔ اداروں کی چشم پوشی اور بعض اہلکاروں کی غفلت نے معاملہ اتنا سنگین تر کر دیا ہے کہ اب افغان ٹرازٹ کے نام پر تجارت کی آڑ میں سمگلنگ کی جانے لگی 

آٹا، چینی ، ڈالرز دیگر جنس اور اشیاء کی قلت اور بحران کا وجہ سمگلنگ کے سوا اور کیا ہے؟…سپہ سالار نے جن غیر قانونی معاشی سرگرمیوں کے خلاف پوری طاقت کے استعمال کا عندیہ دیا وہ سرحدوں پر کی جانے والی غیر قانونی نقل وحرکت ہی تو ہے۔ شنید ہے وفاقی حکومت غیر قانونی تارکین وطن کو وطن واپسی کے لیے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دے رہی ہے، جس کی روشنی میں افغان شہریوں سمیت تمام غیر قانونی مقیم افراد کو ڈی پورٹ کیا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہےکہ افغان مہاجرین کے انخلا کا فیصلہ تو کر لیا گیا ہے۔لیکن اس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔وہ اس لیے کہ تقریبا 2600 کلومیٹر تک جڑے ہوئے ایک ہی مذہب کے ماننے والے اگر ایک دوسرے کے خلاف سر پیکار ہوگے تو نتیجہ کیا ہوگا۔۔۔؟ جسکےدر پر دشمن کب سے ہے کہ زیتون کی ہر شاخ کو کاٹ دیا جائے تو ایسی صورتحال میں موجودہ حکومت کو چاہیے اس حوالے سے ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دے کہ ‘سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ افغانستان چونکہ پاکستان کا ایسا ہمسایہ ہے جس میں بہت سے خاندان سرحد کے دونوں طرف رہائش رکھتے ہیں اس لئے اس معاملے میں بعض امور پر شاید اصولی فیصلے ضروری ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور افغان طالبان کے درمیان چھڑنے والی جنگ میں پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کا خمیازہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ  میں اب تک 80 ہزار سے زاہد جانیں گنوا کر چکانا پڑا۔ 
مگر اب نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو ایپکس کمیٹی میں یہ کہنا پڑا کہ پاکستان کے پاس درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کے اعلان کے بعد پہلے افغانستان کے سفارت خانے کی طرف سے پناہ گزینوں کو پاکستان چھوڑنے کیلئے ایک سال کا وقت دینے کی تجویز سامنے آئی۔ بعدازاں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ٹویٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان غیر ملکی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔
دوسری طرف معاشی پہلو پر اگر بات کی جائے تو پاکستان کے معاشی حالات پہلے ہی ابتر ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے صنعتیں زوال کا شکار ہیں۔ برامدات مسلسل گر رہی ہیں اور جی ڈی پی کی صورتحال بھی غیر مستحکم ہے جبکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت نہ ہونے کے برابر ہے معاشی ابتری کی ایک اور بڑی وجہ سی سیاسی عدم استحکام ہیں جبکہ ایسی صورتحال میں دہشت گردی بھی وقفے وقفے سے معیشت پر حملے کر رہی ہے جیسا کہ اپ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے خلاف کاروائی کی بات کی گئی ہے ایسے میں وہ افغان مہاجرین جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اگر انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے تو معیشت پر اس کے مثبت اثرات پڑیں گے کراچی سے لے کر کوئٹہ تک کوئی ایسا شہر نہیں ہے جہاں افغان مہاجرین کاروبار نہ کر رہی ہوں مگر یہ لوگ نہ تو حکومت کو کوئی ٹیکس ادا کرتے ہیں بلکہ بدلے میں کچھ نہیں دیتے ایسے میں ایک معیشت جو پہلے ہی وینٹیلیٹر پر ہے تو اس پر غیر ملکی اگر اضافی بوجھ بن جائیں تو معیشت مزید سکڑے گی۔

بدقسمتی سے ماضی کی حکومتیں ملکی سرحدوں کی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہداف طے نہیں کر سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر ائے افغان مہاجرین دہشت گردی میں ملوث پائے گئے اور دوسری جانب معیشت کا بیڑا غرق ہوگیا ۔
۔اس تناظر میں موجودہ نگراں وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں اشیا کی غیر قانونی آمد کو روکنے کی خاطر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد پراسسنگ فیس عائد کرنے کا فیصلہ اس سمت میں ایک اہم قدم ہے ۔اس سے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے ناروا دبائو سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ اچھا ہو کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی سلامتی، امن و امان اور تجارتی امور کے حوالے سے رابطے مسلسل قائم رکھے جائیں تاکہ روزمرہ مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوتے رہیں۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-