بدترین تشدد کا شکار ہونے والی رضوانہ نے چلنا شروع کر دیا

رضوانہ کا 90 فیصد علاج مکمل ہو چکا، جلد اسپتال سے ڈسچارج کیے جانے کا امکان ہے،پروفیسر جودت سلیم

لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور کے جنرل اسپتال میں زیر علاج تشدد کی شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کی صحت میں بہتری آ رہی ہے۔رضوانہ گذشتہ تین ماہ سے اسپتال میں زیر علاج ہے۔ سربراہ میڈیکل بورڈ پروفیسر جودت سلیم کا کہنا ہے کہ رضوانہ کا 90 فیصد علاج مکمل ہو چکا ہے۔اس نے اب چلنا شروع کر دیا ہے۔رضوانہ کے زخم بھی کافی حد تک ٹھیک ہو چکے ہیں۔
اسے جلد اسپتال سے ڈسچارج کیے جانے کا امکان ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ رضوانہ کے بازو کی سرجری تاحال نہیں ہو سکی۔آرتھوپیڈک نے ابھی بازو کی سرجری کے تاریخ نہیں دی۔اسپتال سے ڈسچارج کیے جانے کے بعد رضوانہ کو لاہور میں ہی رکھا جائے گا۔یہاں واضح رہے کہ رضوانہ تشدد کیس کے ملزم سول جج عاصم حفیظ 2 ماہ گزرنے کے باوجود بھی شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
پولیس ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس نے کئی بار طلب کیا مگر معاملہ خط و کتابت اور حدود و قیود میں ہی الجھ کر رہ گیا، کیس کا چالان عدالت میں جمع کرایا جا چکا ہے مگر ملزم سول جج عاصم حفیظ کو شامل تفتیش کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق سول جج عاصم حفیظ تاحال شامل تفتیش نہیں ہوئے، لاہور ہائی کورٹ نے جے آئی ٹی سربراہ کو وہاں آ کر تفتیش کرنے کا کہا مگر وہ نہیں گئے۔
راولپنڈی کے سیشن جج نے سول جج عاصم حفیظ سے تفتیش کیلئے تفتیشی افسر کو طلب کیا تاہم اسلام آباد پولیس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اسلام آباد سے باہر کی عدالت انہیں طلب نہیں کر سکتی۔ اسلام آباد کے تھانہ ہمک میں 24 جولائی کو کم سن گھریلو ملازمہ رضوانہ پر سول جج عاصم حفیظ کی رہائش گاہ پر تشدد کا مقدمہ درج کیا گیا۔پولیس حکام نے مقدمے سے متعلق تفتیش کا آغاز کیا تو ابتدا میں راولپنڈی اسلام آباد گوجرانوالہ اور لاہور میں متعدد چھاپے مارے گئے مگر سول جج یا ان کی اہلیہ تک نہ پہنچ سکے۔سول جج کی اہلیہ شامل تفتیش ہوئیں اور عدالت کے حکم پر انہیں کمرہ عدالت سے گرفتار کیا گیا۔