بجلی کے بل اور سسکتی عوام………!

رب تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے رہنے کے لئے بہترین سائباں نیلی چھت والے آسمان کو انسان کے سروں پر سجا دیا ہے جوکہ مختلف کیفیات سے آسمان بنی نوع انسان کو محظوظ کرتا ہے اور طرح طرح کی صورتحال آنکھوں کی روشنائی سے ہم محسوس کرتے ہیں.
ہمارے پاکستان کے اندر تقریباً مختلف قسم کے رہن سہن رکھنے والے لوگ آباد ہیں کچھ کا میں تبصرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں.

1۔صاحب مال یہ ایسے لوگ ہیں کہ ہر معاملات کے لحاظ سے ان کو کسی کام کے اندر کوئی مشکل پیش نہیں آتی ہے ان کے لئے من چاہی زندگی گزانا کوئی اپنے بس کی بات ہے
پھر ان صاحب مال میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں
سخی اور کنجوس
سخی انسان کی نظر ہر انسان پر پڑی رہتی ہے جو اس کے اردگرد ہوتے ہیں ان کا خیال اور دیکھ بھال کرتا رہتاہے اور اس کو یہ کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے وہ اپنا مال غرباء میں خرچ کرنے کی جستجو میں رہتا ہے
اور کنجوس شخص مخلوق سے کنارہ کشی اختیار کرتاہت حتیٰ کہ دوست احباب رشتہ داروں سے بھی کتراتا ہے ایسے شخص کی معاشرے میں کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی ہے

2-زمیندار یہ لوگ کاشت کار ہوتے ہیں اپنی پیداوارکی آمدن سے زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں انکی آمدن ششماہی یا سالانہ کے حساب سے ہوتی ہے پھر ان کاشتکاروں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں

مستاجر اور زمین دار
جو مستاجر ہوتاہے اس نے مالک کو بھی سالانہ دینا ہوتا ہے جسکو عام زبان میں مستاجری کہا جاتا ہے اور اس نے اپنا خرچہ نکالنا ہوتا ہے اس شخص کو نقصان بھی آسکتاہے لیکن یہ نقصان اسی کے ذمہ ہوتا ہے مالک کا اس میں کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے کیونکہ ایک معاہدہ طے پا چکا ہوتاہے اس شخص کو گھر بیوی بچوں کے لیے بہت کچھ کرنا ہوتا ہے کسی حد تک اس کا گزر بسر اچھا رہتا ہے ضروریات زندگی پوری ہوتی رہتی ہے کچھ حد تک خوشحال رہتا ہے
اور جومالک کاشتکار ہوتا ہے اس کو ایک بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ میں نے زمین کی کوئی مستاجری دینی ہے اس کو کاشت سے اچھا خاصا نفع آجاتاہے اس شخص کا گھر اور بیوی بچوں کے اخراجات وافر مقدار میں ہوتے ہیں مستاجر کی بانسبت بہت بہترین زندگی گزار رہا ہوتا ہےاکٹر کی بو بھی اس کے اندر کہیں نا کہیں نظر آتی رہتی ہے

3-بزنس مین یہ شخص اس دور میں ملک کے لئے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے بنک بیلنس اس کے پاس بے تحاشا ہوتا ہے گاڑی بنگلور اس کی ملکیت میں ہوتے ہیں نوکر اس کے اردگرد پروانوں کی طرح لہراتے نظر آتے ہیں ہر طرح کی آرائش اس کے پاس مہیا ہوتی ہے اس سےملنے والے تمام افراد سوٹ بوٹ میں نظر آتے ہیں جہاں ٹریول کرنا ہو کوئی مشکل نہیں ہے جو چاہیں کرسکتے ہیں اور جو چاہیں خرید سکتے ہیں

4-گورنمنٹ ملازم یہ افراد کاروباری تو نہیں لیکن گورنمنٹ نے ان کے لئے بہت سی مراعات فراہم کر رکھی ہیں تنخواہوں میں اضافے ہوتے رہتے ہیں ان کی زندگی بہت خوبصورت اور پُر لطف ہوتی ہے ضرورت کی ہر شے با آسانی مہیا ہو جاتی ہے

5-غریب یہ لوگ محنت کش ہوتے ہیں ہینڈ ٹوماؤنتھ ہوتے ہیں بعض اوقات ضرورت بھی پوری نہیں کرسکتے ہیں حالات کے پیش نظر ان کے گھر کے میانہ اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے ہیں
تقریباً ہمارے وطن عزیز پاکستان میں ان کی تعداد 90فی صد ہے اور مہنگائی کے زد میں بھی یہی افراد ہیں

اقتدار اعلیٰ کو چاہیے ان کا خیال رکھیں تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے گھر کا راشن لیتے ہیں تو دوائی نہیں لے سکتے جینا چاہتے ہیں تو بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے پھر مجبور اور ڈپریشن کا شکار ہو کر غلط قدم اٹھا لیتے ہیں ریلیف دینے کی ضرورت ان لوگوں کے حق میں ہونی چاہیے اب سفید پوش لوگوں کے لیے اس مہنگائی میں رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے ان کا بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے ہیں اور کھر کا احوال کسی کو بھی نہیں بتا سکتے ہیں یہی سوچ کر اندر اندر مر جاتے ہیں ابھی بجلی کے نرخوں میں اضافہ نے انسان کے لیے جینا محال کورکھا ہے

نیک صالح افراد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں اور معافی مانگ کر رضا الٰہی کے مستحق بن کر زندگی استغفار کے ساتھ مزین کرنے میں اپنا کردار ادا کریں پھر رب العالمین ہمارے اوپر اپنی رحمت برسائیں گے اور ہمیں اس پر خطر معاشی بحران سے محفوظ رکھیں گے

اس وقت عالم دنیا بڑے مشکل حالات سے دوچار ہے اور عالم اسلام اللہ کی رضا کی طلبگار ہے رب دوجہان ہمارے ملک کے تمام مسائل حل فرمائیں اور آخرت میں کامیاب فرمائے آمین
ذراسوچیے…..!

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-