لینڈ مافیاز کی یلغار —-

76 سالہ تاریخ شرمندہ ہے کہ پاکستان میں لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کا وجود  قیام آزادی کے فوراً بعد ہی عمل میں آگیا تھا۔ ترکِ وطن کرکے جانیوالے ہندوئوں اور سکھوں کی متروکہ جائیدادوں اور مہاجرین کو الاٹ ہونیوالی زمینوں پر قبضہ کر کے اِس مافیا نے اپنے مکروہ دہندے کی بنیاد رکھ دی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ یہ دہندہ سرایت اختیار کرتا چلا گیا اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا اور ملک کے ہر کونے میں اپنے شکجے گاڑ چکا ہے اور اب حال یہ ہے کہ ملک کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت، لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کی مدد کے بغیر قائم رہنے کا تصور کر سکتی ہو بلکہ اندھی دولت کا مالک یہ لینڈ مافیا اپنی خدمات کے باعث سیاسی جماعتوں میں زیادہ عزت و تکریم کا مالک سمجھا جاتا ہے۔
 یہ مافیا نہ صرف پورے پاکستان میں موجود ہے بلکہ اس قدر بااثر اور طاقت ور ہے کہ ریاست اس کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں زمینوں کی غیر قانونی فروخت کا کاروبار 90 ہزار ارب سے زیادہ ہے۔ جس کی تائید وزیر داخلہ کی ایک پریس کانفرنس ہے جس میں انہوں نے صرف اسلام آباد میں محض 33ہزار کینال زمین پر ناجائز قبضہ واگزار کروانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس زمین کی مالیت 3کھرب سے زیادہ ہے۔
سابقہ دور حکومت میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے زرعی اراضی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے گراں قدر کام کیا پھر سابقہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک نئی اصطلاح پٹواری کلچر اور اس کا خاتمہ متعارف کروائی گئی اور لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا مگر سسٹم میں بیٹھے طاقت ور مگرمچھوں نے حکومتی اقدامات کے راستے میں بے پناہ رکاوٹیں کھڑی کی اور مختصراً یہ سسٹم بری طرح فلاپ ہوا اور اس کی بنیادی وجہ ناقص منصوبہ بندی اس کو لانچ کرنے میں جلد بازی اور سنٹر اور عملہ ضرورت سے بے حد کم اور نا تجربہ کار رکھا گیا۔ حکومت پنجاب نے پٹواری نظام بحال کرنے کا فیصلہ بھی شاید سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ وڈیروں، قبضہ مافیا، کرپٹ بیوروکریسی اور حکومت کے اندر چھپی ہوئی کالی بھیڑوں کے دباؤ کے نتیجے تھا۔

اگرچہ بے سہارا لوگوں کو زمینوں پر جعلی کاغذات کے ذریعے قبضوں کی آوازیں تو ملک کے کونے کونے سے اٹھتی رہتی ہیں۔
جن میں پنجاب کے دور افتادہ اور مضافاتی علاقے خصوصاً جنوبی پنجاب میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ پٹواریوں تحصیلداروں اور محکمہ مال کے سابق ملازمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جعلی پٹوار خانے قائم کر رکھے ہیں جو پرانی تاریخوں کے اسٹامپ پیپرز کے ذریعے بے سہارا غریب لوگوں کی وراثتی جائیدادیں اور زرعی رقبے جعلی رجسٹریوں کے ذریعے بھاری معاوضوں کے عوض قبضہ مافیا کو بھاری رشتوں کے ذریعے انتقال کر دیتے ہیں۔
مگر یہاں چراغ تلے اندھیرا کی مثال دارحکومت کی ہے
اسلام آباد میں لینڈ مافیا کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ یہاں CDA، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ادنیٰ سے اعلیٰ سطح تک کے افسران، لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کی یلغار ہے جوان کے سامنے ہاتھ باندھے اور سرجھکائے ہر حکم کی تعمیل کیلئے مستعد کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہی صورتحال راولپنڈی کی ہے۔
راولپنڈی ،اراضی ریکارڈ سینٹرروات میں ٹاﺅٹ اور لینڈ مافیا کا قبضہ ہے۔

اے ڈی ایل آر نہ ہونے کی وجہ سے عام سائلین سے ٹاﺅٹ اور لینڈ مافیاز کے ذریعہ انتقالات درج کرنے کی بھاری رشوت وصول کی جا رہی ہے۔
میناراضی ریکارڈ سینٹر کے ملازمین کرپٹ مافیا کے ساتھ مل کر زمینوں کے انتقالات درج کئے جا رہے ہیں ۔اراضی ریکارڈ سینٹر میں جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ محکمہ مال مادر پدر آزاد ہے اور اپنی من مانی سے مافیاز کے ذریعہ بھاری رشوت سے کام چلایا جا رہا ہے عوامی مطالبہ زور پکڑ تا جا رہا ہے کہ کمشنر راولپنڈی اس کرپٹ مافیاز کے خلاف نوٹس لے کر ان کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔سائیلان کا کہنا ہے کہ عرصہ دراز سے روات اراضی سینٹر کے ملازمین کرپٹ مافیاز کے ساتھ مل کر گاڑی میں بیٹھ کر انتقالات کے اس مکرو دھندے میں مصروف عمل ہیں جبکہ انتظامیہ اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے۔
راولپنڈی رنگ روڈ 131 ارب کا  کیس لینڈ مافیا کا سب سے بڑا اسکینڈل ہے جس میں پسند کے افراد میں زمین کی تقسیم کے ساتھ الاٹمنٹ ہے یا پھر نقشے کی تبدیلی کا، دوسرے الفاظ میں بلاواسطہ کسی کو فائدہ پہنچا زباں زدعام ہے

ایک سروے کے مطابق اسلام آباد میں زمین کی اہمیت کے مطابق انتقال کی رشوت دس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے فی کنال مقرر ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پٹوار خانوں میں لوٹ مار اور بدعنوانیاں یہیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ ایک ایک کلائنٹ کئی کئی سال نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ زمین کے انتقال کے لیے رجسٹر انتقال کے دو پرت ہوتے ہیں، اور ایک پرت پٹوار اور دوسرا پرت سرکار کہلاتا ہے۔ جب زمین کا لین دین کرنے والے تحصیلدار کے روبرو بیان ریکارڈ کراتا ہے تو تحصیلدار پرت سرکار کے کونے میں مارک کر دیتا ہے۔ اس کے بعد لین دین کرنے والا شخص ڈی سی ریٹ کے مطابق موٹیشن فیس بینک میں جمع کرا دیتا ہے تو تحصیلدار رجسٹری پاس کرانے کے عمل میں ڈال دیتا ہے لیکن پٹواری پرت پٹوار اپنے پاس رکھ لیتا ہے لیکن پرت سرکار اس انتقال کو پاس کرانے کے لئے تحصیلدار کو پیش نہیں کرتا بلکہ اسے بھی اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور وقتاً فوقتاً اس ردوبدل اور ٹمپرنگ اس پر اعتراضات لگا اسے پاس کرانے سے انکار کرتا رہتا ہے اور رشوت خوری کا یہ سلسلہ سالہا سال جاری رہتا ہے۔ اسی پر ایک  کہاوت ہے کہ  زن‘و زر‘ زمین فساد کی جڑ ہے تو یہاں یہ مثل درست لگتی ہے جب

مورخین حقائق کی بنا پر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ مملکت خداداد میں کرپشن‘بے ایمانی لوٹ مار‘لالچ ہوس کی بنیاد قیام پاکستان کے بعد زمین کی غیر قانونی الاٹ منٹ سے شروع ہوئی۔ اس کرپشن میں ملوث سرکاری اہلکار سے لے کر وزیر تک رہے مگر کلیدی کردار پٹواری کا تھا جو کل بھی تھا اور آج بھی ہے ۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-