آئین بمقابلہ سیاست

پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے وہ یقیناً ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار دیکھے جارہے ہیں۔
موجودہ سیاسی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہےکہ ہرنیا آنے والا دن گزرجانے والے  دن سے بدتر محسوس ہوتا ہے۔حال کی نسبت ماضی بہترلگنے لگتا ہے۔

جبکہ ملکی حالات کی ابہتری کو دیکھتے ہوئے
اس وقت کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ کس کا ایجنڈا کیا ہے۔ کون فیصلے کر رہا ہے اور کس کے ہاتھ میں طاقت کی اصل دوڑ ہے۔

ہمارے ملک کا ایک المیہ ہے کہ جب ہم کسی دور سے گزر رہے ہوتے ہیں تو وہ ہم پر قیامت ڈھاتے ہوئے گزرتا ہے، لیکن جب اگلا دور اُس سے بھی برا آتا ہے تو ہم پچھلے دور کو رحمت اور اگلے دور کو زحمت قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم ماضی میں فوجی حکمرانوں کی ہی مثال لے لیں۔
جیسے جنرل مشرف حکومت کا دور ہمیں (dictatorship) لگتا تھا لیکن اُس کے بعد پیپلزپارٹی کا دور آیا تو ہمیں مشرف دور کی یاد ستانے لگی۔ لیکن پھر اُس کے بعد ن لیگ کی حکومت آئی اور نت نئے ٹیکسز لگے تو ہمیں زرداری صاحب اچھے لگنے لگے۔ پھر تحریک انصاف کی حکومت آئی اور مہنگائی آسمان کو چھونے لگی تو ہمیں نواز دور اچھا لگنے لگا۔ لیکن پھر انصافی دور کا جیسے ہی خاتمہ کیا گیا اور شہباز حکومت آئی تو تحریک انصاف کی حکومت ہمیں فرشتہ صفت لگنے لگی۔ یہی حال ہمارے ہاں فوجی حکومتوں کا رہا کہ آپ فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان کی مثال لے لیں۔ان کے دور میں ملک دولخت ہوگیا۔سب نے برا بھلا کہا ، مگر جب جنرل ضیاالحق تشریف لائے تو اس رائے پر نظر ثانی کرنا پڑی اور مورخ یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ جنرل یحییٰ خان جو بھی تھا ،کم ازکم منافق نہیں تھا۔ پھر ہمارے ’’لخت جگر‘‘ کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ہمیں سابقہ جرنیل بھولنے لگے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے 6سالہ دور میں جوکچھ ہوا ،اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اب آپ عدلیہ
ہی کی مثال لے لیں، عدلیہ میں بھی کم وبیش اسی طرح کی صورتحال کا سامنا رہا۔مولوی تمیز الدین کے مقدمہ میں جسٹس منیر نے وہ بدنامی سمیٹی کہ نظریہ ضرورت پہلی بار منظر عام پر آیا۔ لیکن جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس افتخار چوہدری نے یہ مغالطہ دور کردیا۔لہٰذاہمیں ہر دور ہی نامناسب ملا اور اسی وجہ سے ملک پیچھے کی جانب چلا گیا۔ اب اگر آپ آج رخصت ہونے والے چیف جسٹس عمر عطابندیال کی بات کریں تو وہ سپریم کورٹ کے 28ویں چیف جسٹس تھے، انہوں نے گزشتہ حکومت کے بے شمار غلط فیصلوں کے آگے بند باندھے رکھے۔ یہ وہی بند تھے جن کا ذکر انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنی پہلی تقریر میں کیا تھا۔

وہ اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں کر تو کچھ نہ سکے البتہ اس دوران عدلیہ جس قدر بے توقیر ہوئی ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے آڈیو لیکس جیسے مقدمات کا سامنا کیا،  9مئی جیسے واقعات پر عدالتی دبائو کا سامنا کیا، انہوں نے نیب ترامیم کے خلاف کھل کر فیصلے دیے۔
چیف جسٹس عمر عطاءبندیال جو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد رخصت ہو گئے ہیں،جسٹس عمر عطاءبندیال کے دور کو تو ایک ہنگامہ خیز دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا
مگر جاتے جاتے ایک تاریخ ساز فیصلہ کر گئے
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دیں۔انہوں نے نیب کی تمام ختم کی گئی انکوائریز اور کیسز بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے 50 کروڑ کی حد سےکم ہونے پر ختم ہونے والے سارے مقدمات بحال کر دیے
سپریم کورٹ کے فیصلے نے سیاسی اور انتظامی منظر نامے پر ابھرنے والے کئی امکانات کی واپسی کی گنجائش دکھائی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا جبکہ اس بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ بھی لکھا۔

دوسری جانب
پی ڈی ایم حکومت قائم ہونے کے پہلے ہفتے ہی نیب ترامیم منظور کر لی گئی تھیں۔ان ترامیم سے حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار کو قانونی تحفظ دینے کا تاثر پیدا ہوا ۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نیب کے قوانین میں ترمیم کے خلاف اپنی درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا تھا۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ نیب کے قانون کے سیکشن 2،4،5، 6،25، 26 14،15، 21، 23 میں کی جانے والی ترامیم آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 9، 14، 19اے, 24, اور 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔
نیب قوانین میں ترامیم سے جن معروف شخصیات کو فائدہ ملا ان میں پی ڈی ایم حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف،سربراہ مسلم لیگ ن نواز شریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری، راجہ پرویز اشرف شامل تھے۔تاہم ترامیم سے بہت سے بیوروکریٹس نے بھی فائدہ اٹھایا۔فواد حسن فواد، احد چیمہ کو بھی نیب ترامیم کا فائدہ دیا گیا۔سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے 137 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ جمع کرائی جس میں ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست دی گئی
ہوئے۔ پی ڈی ایم حکومت نے نیب قانون میں جو اہم ترمیم کیں ان  میں کہا گیا کہ نیب 50 کروڑ سے کم مالیت کے معاملات کی تحقیقات نہیں کر سکتا۔اس ترمیم سے گویا لاٹ مار کرنے والوں کو لائسنس دیدیا گیا کہ وہ پچاس کروڑ سے نیچے تک جرم کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ نیب دھوکہ دہی کے کسی مقدمے کی تحقیقات تبھی کر سکتا ہے جب متاثرین کی تعداد 100سے زیادہ ہو۔اس شق کا فائدہ پی ڈی ایم حکومت میں شامل کئی وزراء نے خوب اٹھایا
نیب قوانین میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔بل میں کہا گیا کہ اس قانون کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی۔یوں لگ بھگ پونے دو سو مقدمات ایف آئی اے، پولیس اور دیگر اداروں کو بھیج دئے گئے ۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ بلاشبہ اس تاثر کی نفی کرتا ہے کہ ریاست کے وسائل طاقتور کی جیب بھرنے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔یہ فیصلہ وزیر اعظم وآرمی چیف کی جانب سے شروع گئی حالیہ ان کوششوں کی تقویت کا باعث ہو گا جو بجلی،گیس چوروں اور مختلف مافیا کی صورت کام کرنے والے گروہوں کی سرکوبی کے لئے بروئے کار لائی جا رہی ہیں۔خدشہ موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سیاسی شخصیات کوئی نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کریں
یہ فیصلہ یقینا خوش آئند ہے، جرأت مندانہ ہے اور بے باک ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس ’’محفوظ فیصلے‘‘ کو چیف جسٹس اگر کچھ دن پہلے سنا دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن دیر آئد درست آئد کے مصداق اب اس فیصلے کے بعد سیاست کا رُخ تبدیل ہو جائے گا۔ ملک میں سیاسی گرما گرمی میں اضافہ ہوگا۔ الیکشن الیکشن کرنے والی پارٹیاں الیکشن سے دور بھاگیں گی۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-