ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے ہمسائے کہاں—؟

نئی نسلوں کو سبق سیکھنے کیلئے دنیا کتاب کے اوراق میں بہت بڑے بڑے باب لکھ کر ازل سے لیکر اب تک دہرائے گئے ہیں کہ تاریخ میں اپنے وقت کی کئی ناقابل تسخیر سلطنتیں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں اور اپنے پیچھے صرف بھیانک داستانیں چھوڑ گئیں یا پتھروں کی بنی عمارتیں,جن کی وجہ سے ان کا نام باقی ہے.سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کا نام و نشان مٹ گیا حالانکہ یہ ایک صرف فوجی طاقت نہیں تھی بلکہ ایک نظریے کی بھی علمبردار تھی ۔سوویت یونین کے کیمونسٹ نظریے کو دنیا بھر میں بڑی پذیرائی ملی لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ کیمونسٹ ریاست اپنے ساتھ کمیونزم کو بھی لے ڈوبی۔ دوسری بچ جانے والی طاقت امریکا ہے جو بلاشبہ اس وقت انسانی تاریخ کی سب سے طاقت ور حکومت ہے لیکن امریکا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا مرکز بھی ہے۔ تقریبا ڈھائی سو سال برطانوی سامراج کے زیردست رہنے والی برصغیرکی دو قوموں کو جب 1947ء میں نام نہاد آزادی ملی تو ایک ملک بااسانی سے ہضم کررہا ہے جبکہ دوسرا ملک انگریز سامراج آزادی کے فوری بعد ہی ایک اور غلامی کو ترجیحی دینے کے ساتھ امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیااور یہ آج 76 برس کے بعد یہ طوق ہمارے لیے جو پھانسی کا پھندہ بن چکا ہے۔

ہم پاکستانیوں اور ہماری قیادت نے اس مملکت خداداد کے ساتھ جو سلوک کیا ، اس کو دہرانے کا مطلب اپنے زخموں پر خود ہی نمک پاشی کرنا ہے کہ پاکستان کے آئین، پاکستانی عدلیہ اور نام نہاد جمہوریت کے پرخچے اڑا دیے گئے ہیں۔ شخصی سیاست، وڈیرہ شاہی، بدعنوانی اور طاقت کے ناجائز استعمال کرنے والوں کی ناعاقبت اندیشی اس ملک اور قوم کو جس پستی اور بربادی کی طرف لے جا رہی ہے وہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرے میں گھٹن کی جو فضا پائی جاتی ہے اس میں نہ جانے کتنے بے گناہوں کی مزید جانیں جائیں گی اور کتنی ماؤں کی گودیں اجڑیں گی، کتنے بچے مزید یتیم ہوں گے، کتنی خواتین بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گی۔ ارباب اختیار کو گویا اسی کا انتظار تھا نوبت یہاں پر اگئی ہے کہ افغانستان جیسے ملک نے بھی اپنے شہریوں کو پاکستان سے محتاط رہنے کی اپیل کی ہے اور مزید سمجھا کہ یہاں قیادت کا فقدان ہے، یہاں وہ کس سے بات کرے؟ یہاں بات چیت کی گارنٹی دینے والا کون ہے؟ یہاں کی انویسٹمنٹ کی گارنٹی دینے والا کون ہے؟ ایسی چند باتوں نے میرے کو بہت سا بے چین کر دیا ہے کہ بھارت چاند پر پہنچنے کے بعد ایسا کیا کِیا آج وہ نہ صرف جی 20ممالک کا حصہ ہے بلکہ اس کی صدارت بھی کر رہا ہے جبکہ اس وقت پاکستان شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ عوام مہنگائی سے بلبلا رہے ہیں۔

ابھی بجلی کے بلوں کا صدمہ کم نہیں ہوا کہ گیس کی قیمتیں بڑھانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔اور رہی بات پاکستانی معیشت کی تو یہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں سوویں پوزیشن سے 157ویں نمبر پر چلی گئی ہے۔ بھارت مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے والے کثیر القومی ریل اور بندرگاہوں کے معاہدے کا اعلان بھی ہوا ہے جس کے بعد اب بھارت چینی طرز کی ’’راہداریاں‘‘ بنانے کی طرف گامزن ہو رہا ہے۔محض یہ کنٹریکٹ کرنے میں تو اچھا لگتا ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے یہ فیوچر بتائے گا کتنا سچ ہے کتنا جھوٹ ہے لیکن بھارت نے اپنی حسب روایات کے مطابق دشمنی جنون کو مدنظر رکھتے ہوئے بنگلہ دیش، مصر، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات، عمان، سنگاپور، نیدر لینڈز، سپین اور ماریشیئس کو بھی مہمان کے طور اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی لیکن پاکستان کو بطور مہمان بھی مدعو نہیں کیا گیا۔یادرہے! یہ تنظیم G20 دنیا کی معیشت کا 85 فی صد جی ڈی پی اور 75 فی صد عالمی تجارت انھیں ملکوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ممالک دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ویسے تو اس گروپ کا مقصد معاشی نظام کے مختلف پہلوؤں اور مسائل پر غور کرنا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں دیر پا ترقی، صحت، زراعت، توانائی، ماحولیاتی تبدیلی اور انسداد بدعنوانی جیسے معاملات بھی شامل ہوتے گئے۔

خیر حالیہ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق مذہبی عقائد، اظہار رائے کی آزادی اور پر امن اجتماعات کے حق پر زور دیتے ہوئے ہر قسم کی عدم برداشت، مذہبی عقائد کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہیں۔اعلامیہ میں لوگوں کے خلاف مذہبی منافرت کی کارروائیوں اور مقدس کتابوں اور علامات کے خلاف نفرت انگیز کارروائیوں کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے اور دنیا کی 20 عالمی طاقتوں کے سربراہ نریندر مودی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جی20 کے سٹیج پر مسکرا رہے تھے ہم بجلی چوری پر قابو پانے، ڈالر کے پیچھے بھاگنے اور چینی چوروں کو سبق سکھانے کی حکمت عملی طے کررہے تھے یہ المیہ دیکھ کر یہ تحریر لکھتے وقت میرا قلم کبھی رکتا رہا کبھی چلتا رہا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے ہمسائے کہاں ہیں ابھی بھی وقت ہے میرے ارباب اختیاروں نظام پاکستان کو سدھار لیں دل سے کدورتیں نکال کر جیسے ہمارا سپہ سالار اعلیٰ عزم لیکر رواں دواں ہے اسی طرح ہی تمام سیاسی جماعتوں کو اس پورے عمل کی اونرشپ لینا ہو گی اور کوئی بھی ایک سیاسی جماعت آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میثاق معیشت پر سب کو متفق کروائے۔ سب کو، چاہے وہ فوج ہو، عدلیہ ہو، بیوروکریسی ہو یا پھر سیاسی جماعتیں۔ جب تک ایک ایجنڈے پر اتفاق رائے نہیں ہو گا ہم ایک قدم اگے نہیں بڑھ سکتے اس لیے وقت اگیا ہے کمپیئر نہیں کمپرومائز کی پالیسی پر اتفاق کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-