خاموشی کا احترام کرو…..

کہتے ہیں کہ کسی شہزادے نے یکایک چُپ سادھ لی۔ سب حیران تھے کہ شہزادہ حضور کو کیا ہو گیا ہے۔انہوں نے شہزادے کی خاموشی توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔
ایک دن خاموش شہزادہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پرندوں کا شکار کھیلنے جنگل کی طرف گیا اور ایک گھنے درخت کے نیچے کھڑا شکار تلاش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد درخت کے اندر سے کسی پرندے کے بولنے کی آواز آئی۔شہزادے نے فوراً آواز کی سمت تیرچلا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک پرندہ زخمی ہوکر نیچے آ گرا۔ تب خاموش شہزادہ بول اُٹھا:
” پرندہ جب تک خاموش تھا سلامت رہا مگر بولتے ہی تیر کا نشانہ بن گیا۔”

بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ کہ جن کو اللہ نے شروع سے ہی خاموشی کی زبان عطا کیا ہو ورنہ انسان یہ بہترین زبان بڑے تلخ تجربات کے بعد سیکھتا ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے :
ترجمہ: ’’جو خاموش ہوا وہ نجات پا گیا۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 2 : 159)

خاموشی کا درجہ عبادت سے کسی طور بھی کم نہیں۔محفل ہو کہ تنہائ خاموشی کا رتبہ بہت بلند ہے۔ یہ عادت اگر قدرتی نہ ہو تو بڑی ریاضتوں کے بعد بنتی ہے۔ بولنے والے لوگ آخرکار لفظوں کی حقیقت سے واقف ہو کر یا اُکتا کر خاموشی اوڑھ لیتے ہیں۔ وہ جان جاتے ہیں کہ خاموشی گہرائ، پر اسراریت اور لامحدودیت کا منبع ہےجبکہ الفاظ محدود ہیں۔ خاموشی کا اثر لفظی پیان کی نسبت زیادہ معنی خیز ہے۔ اسی لیے انبیاء، علماء، فقہاء، اولیاء اور تمام بڑے دانشوروں نے خاموشی یا کم بولنے کو غیر ضروری اور بے تھکان بولنے پر فوقیت دی ہے۔حضرت آدمؑ سے لیکر حضور اکرمؐ تک تمام انبیاء نے عبادت اور اپنے آپ میں نکھار کے لیے تنہائ اور خاموشی کو اہمیت دی۔ نبی پاکؐ دنیا کے شور سے دور غار حرا کی خاموشی و تنہائ میں عبادات کے طفیل نبوت کے مقام پر فائز ہوئے۔دینی اور دنیاوی علماء نے تنہائ اور خاموشی کو سب سے بہتر جانا۔تمام اولیاء کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں تو وہ آپ کو کئ سالوں تک جنگلوں اور ویرانوں کی خاموش فضا میں عبادات کا لطف اور خاموشی کی زبان حاصل کرتے نظر آئیں گے۔شاعر فردوس گیاوی نے ان تمام باتوں کو اپنے شعر میں کیا خوب سمیٹا ہے:

علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی

خاموشی دراصل جسمانی مشقت اٹھائے بغیر اک بہترین عبادت اور سجاوٹ کے بغیر خوبصورتی ہے۔اس میں ایک رعب و دبدبہ ہے۔اس سے انسان کے عیب چھپتے ہیں، یہ کلام کے باعث معذرت و معافی تک پہنچانے والی زلت سے نجات دلاتی ہے، یکسوئ کی دولت میسر آنے سے اپنی عبادات، علوم اور فنون میں بہترین منازل حاصل ہوتی ہیں اور نامہءِ اعمال میں گناہوں کی سیاہی بھی نہیں پھیلتی۔ کلام کو اگر سونا تصور کیا جائے تو خاموشی کی حیثیت ہیرے کی مانند ہے۔ بے وقوف سے بے وقوف آدمی بھی جب تک خاموش رہتا ہے وہ عقلمند تصور ہوتا ہے۔اس سے فریقین کے درمیان غلط فہمیاں، بدگمانی، تفرقہ اور جھگڑے پیدا نہیں ہوتے۔ یہ دراصل صبر،استقامت،خود اعتمادی اور لگن کا استعارہ ہے۔اس سے انسان کو زہنی و قلبی سکون کے ساتھ ساتھ بہت سی پریشانیوں سے نجات بھی ملتی ہے۔خاموش انسان کے سامنے بڑے سے بڑے غصہ ناک انسان بھی رام ہو جاتا ہےں اسی لیے دانشوروں نے خاموشی کو اصل حکمت کہا ہے۔ ناطق لکھنوی کا خوبصورت شعر ہے کہ:

کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

امام اوزاعی نے فرمایا کہ:
“عافیت کے دس حصے ہیں۔نو حصے خاموشی اور ایک حصہ لوگوں سے کنارہ کش رہنا”۔

شیخ سعدیؒ نے فرمایا کہ ” میں آج تک اپنی خاموشی پر نہیں پچھتایا. ”

خاموشی بظاہر چپ رہنے کو کہتے ہیں مگر اہلِ علم و دانش کے نزدیک خاموشی دراصل باطنی توجہ کا دوسرا نام ہے۔باطنی توجہ سے مراد بلاضرورت بولنے سے گریز اور ضرورت کے وقت بھی صرف مثبت بات کہنا ہے۔حضرت عیسیٰؑ سے لوگوں نے جنت جانے کا طریقہ پوچھا۔ آپؑ نے خاموش رہنے کی تلقین فرمائی۔ لوگوں نے کہا کہ ایسا تو بہت مشکل ہے۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ صرف بھلائی کی بات کی جائے۔‘‘
(غزالی، احیاء علوم الدین، 3 : 246)

شیخ اکبر علامہ ابن عربی (م 638ھ) کے مطابق خاموشی کی دو اقسام ہیں :

1۔ زبان کی خاموشی:
زبان کی خاموشی سے مراد ان باتوں کو چھوڑ دینا ہے جن کا تعلق غیر اﷲ کے ساتھ ہو.

2۔ دل کی خاموشی:
دل کی خاموشی دے مراد دل میں کسی وقت بھی شیطانی وسوسہ پیدا نہ ہونا ہے.

صرف زبان کی خاموشی انسان کے گناہوں کا وزن ہلکا کرتی ہے۔ اگر صرف دل خاموش ہو تو حکمت و دانائی کی باتیں ہوتی ہیں اور جس شخص کی زبان اور دل دونوں خاموش ہوں تو اس پر کائنات کے راز کھلتے ہیں اور اللہ زات منکشف ہوتی پے۔ ایسا شخص کہ جس کی زبان اور دل دونوں خاموش نہ رہیں وہ شیطان کا غلام اور تابع ہوتا ہے۔

البرٹ آئن سٹائن کا قول ہے:
خاموشی اور تنہائی تخلیقی ذہن کو تحریک دیتی ہے۔

بینجمن ڈزرائیلی کا کہنا ہے کہ “خاموشی سچائی کی ماں ہے۔”

فیثا غورث کا بیان تھا کہ “خاموشی بے معنیٰ الفاظ سے بہتر ہے۔”

خاموشی کو تمام زبانوں مرشد کہا جائے تو درست ہوگا۔اس میں چھپی باتیں اور سکون جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم ایک دن کے لیے شہری زندگی کے ہنگاموں سے دور بہت دور کسی گاؤں میں جایا جائے۔صبح سویرے کی خنک ہوا، پرندوں کی چہچہاہٹ اور لہلہاتے کھیتوں کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا جائے۔شام کے دھندلکے میں چھپے اک سحر انگیز سکون اور خاموشی کا اثر لیا جائے۔رات کو کھلے آسمان کے نیچے لیٹ کر چاند اور تاروں کا مشاہدہ کیا جائے کہ وہ کس طرح اپنے رب کے حکم کے تابع خاموشی سے اپنے فرائض کی انجام دہی کرتے ہیں۔ان محسوسات کے ساتھ انسان اپنے رب کی عظمت کا قائل ہوتے ہوئے اس کی زات کے مزید قریب ہو جاتا ہے۔اس پرسکون اور خاموش فضا کے اثر سے انسان کی روح کو وہ خوشی ملتی ہے کہ جس کا بیان لفظوں میں ممکن ہی نہیں۔ان عجائبات سے آشنا ہوجانے کے بعد اگر انسان اپنی زندگی پر نظر دوڑائے تو اس پر عیاں ہوتا ہے کہ زندگی میں کئ مقامات پر خاموشی اختیار نہ کر کے ہم نے اپنا سکون خود تباہ کیا ہے۔اگر ہم بولنے سے پہلے تول لیتے تو خواہ مخواہ کا پچھتانا نہ پڑتا۔ اسی لیے فلاسفروں اور سیانوں نے خاموشی کو عبادت سے تشبیہہ دے کر جھوٹ، غیبت، بہتان، بڑبولی اور چغل خوری پر الفاظ ضائع کرنے کی ممانعت کی ہے۔ خاموشی صرف اس وقت توڑنے کا حکم ہے کہ جب ظلم ہو اور سچ کہنا ضروری ہو۔ایسی صورت حال میں خاموشی عبادت نہیں بلکہ جرمِ عظیم کہلائے گی۔
آئیے دعا کریں کہ اللہ ہم سب کو زبان کے شر سے بچائے، سچ بولنے اور خاموشی بطور عبادت اختیار کرنے کی توفیق دے۔۔آمین ثم آمین۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں.