قدرت،قلم، کتاب، لکھاری،شہرت و گمنامی!

ہوں تو میں ادب کا معمولی سا طالب علم جو کبھی کبھی قلم تھام کر لکھنے کی جسارت بھی کرتا ہے مگر جب شہرت یافتہ لکھاریوں کے روبرو ہو تا ہوں تو صاف سمجھ آتاہے چھوٹے انسان پر قدرت کا بڑا انعام ہے جنہیں زمانہ پڑھتا سنتا ہے ان کی باتوں پر کان اور دل دماغ دھرنے والوں کی کثیر تعداد شہرت نے باندھ رکھی ہوتی ہے وہ سادہ سی بات بھی متاثر کن انداز میں کہیں تو لوگ واہ واہ کرنے لگتے ہیں اور ناجانے کتنے ہی گمنامی میں بسنے والے لکھاری جنہیں قدرت اپنے نایاب و پوشیدہ جہان کی تصوراتی سیر کروا کے روح کو جکڑ لینے والے منظر قلم کی زبان سے بیان کروا بھی دے تو وہ حلقہ ارباب ذوق میں سرائیت سے محروم رہ کر کاغذ کی زمین میں ہی دفن ہو جاتے ہیں

شاید اسی لیے کئی لوگ اپنی بات پہنچانے کے لیے شہرت کمانے میں لگ جاتے ہیں کیونکہ ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کسی شاعر کے خونی جذبات کو نچوڑ کر تخلیق ہونے والے کلام بھی زبان عام نہیں ہوتے مگر کسی سُریلی آواز کے گلوکار کا گایا ہوا عام سے منظر بیان کرتا کلام بھی مشہور ہو جاتا ہے شاعری سُریلی آوازوں کے جہان میں زیادہ خوش رہتی ہے اور نثری تحریریں انداز بیاں کا زیور پہننا چاہتی ہے۔کچھ لوگوں کا دل و دماغ بیدار ہوتا ہے اور روح سوئی ہوتی ہے کچھ کی روح بیدار ہوتی ہے مگر دل و دماغ سوے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے دل ودماغ اور روح دونوں بیدار رہتے ہیں انہی لوگوں سے قدرت انمول تخلیق کا کام کرواتی ہے جو دماغی اور روحانی شعور کا توازن برابر نہ رکھ پانے والے عام لوگوں کے سیکھنے سمجھنے اور کہنے کا زریعہ بنتا ہے دنیاوی زندگی میں روحانی حیات بسر کرنے والے لوگوں کا طرز عمل الگ ہی رہتا ہے وہ شہرت کی جیل کے قیدی نہیں بنتے ذاتی نمائش سے پاک ان لوگوں کو علم عطاہوتا ہے کہ خدا نے کائنات کے لاتعداد رنگ انسانیت کے سامنے تخلیق کرکے خود کو پوشیدہ رکھ لیا تاکہ جوخدا کو جان جاتا ہے وہ خود کو پوشیدہ رکھ کران رنگوں میں خدا کو ظاہر کرنے میں لگ جاتا ہے جیسے خدا زبان محمد ؑ بن کرمیرا بندہ بندہ کہے اور بندہ بھی زبان محمد ؑ بن کرمیرا خدا خدا کہے تو انسانی اور خدائی محبت ایک دوسرے کی ترجمانی میں لگ جاتی ہیں

یہی محبت تخلیق انسان کا مقصد ہے اس محبت میں گرفتار لکھاریوں نے اپنی تحریروں میں خدائی نظریات کی قلمی عکاسی کی ہے اورجب زمین ان کے کم بھاری بھر جسے کو خوراک کی طرح اپنے معدے میں اتار لیتی ہے تب ان کی کلاموں کی زندگی کتابی دھڑکنیں بن کرزمانہ عام کے دلوں میں جینے لگتی ہے ان کی تحریروں میں ان کے ادب کا مقام جھلکتا ہے تو لوگ پچھتانے لگتے ہیں کہ کاش ان سے اک بار ملے ہی ہوتے۔اب خدا کی عطاکا جلوہ تو دیکھے کہ وہ کہتا ہے یہ میرا دوست بن کر ساری زندگی اپنی زات سے نکل کر میری زات کی پہچان کی تبلیغ اس انداز میں کرتا رہا کہ ایک ایسا شیشہ جس میں خدا کا روپ دیکھائی دینے لگے تب خدا ن کے زمینی وجود کی زندگی کے خاتمے کے بعد انہیں آسمانی جہاں میں اپنے پاس رکھ کر قدرت کے جلوے کرواتا ہے جہاں سے وہ زمین پر نظر مارتے ہیں تو دیکھتے ہیں جس زمین پر ہم خدا کو دیکھاتے رہے اب وہاں خدا ہمیں دیکھا رہا ہے یہ منظر دیکھنے کے بعد بھی ان کی مراد خدا ہی رہتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اے خدا خاکی زمین پر خاکی وجود میں جیتے وقت بھی تجھے دیکھتے رہے اور اب روح جسم کی قید سے نکل کر تیرے جلوے زیادہ شفافیت سے دیکھ کر مسرور ہو رہی ہے دنیا میں تیری چاہت دیدار کی تڑپ میں لپٹی رہی کہ تو سامنے نہیں تھا اور اب روح کی روبرو ہے تو تیری چاہت آخرت کے وقت کی طرح وسیع ہو چکی ہے کاٹ کھانے والی دنیا کی زندگی قابل صبر اسی لیے تھی کہ میرے وجود میں تیرا بسیرا تھا اور یہ جنت بھی اسی لیے حسین و جمیل ہے کہ یہاں تیرا جلوہ سمایا ہے۔میرا قلم میری سوچوں کی طرح جذبات کی رو میں بھٹک کر کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے جیسے میں بتانا کچھ چاہتا تھا اور مجھ سے لکھوایا کچھ جا رہا ہے اس بے اختیار کیفیت کو لفظوں میں قید نہ کرنا بھی تو میرے لیے ملاوٹ کرنے جیسی ملامت ہوگی مگر میں اس بات کے ساتھ واپس قلم کا رُخ موضوع آغاز کی طرف موڑنے کی کوشش کرتا ہوں۔گمنامی اور شہرت کے تزکرے سے شروع ہوا قلم بے لگام گھوڑے کی طرح احساس کی وادیوں میں سرپٹ دوڈتاہی چلا جا رہا تھا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے اندر پیدا ہونے والی تخلیق سے نظریں چرا کر شہرت کی راہ پر نگاہیں جما لیں محنت کو اول درجے پر رکھیں محنت کرتے کرتے شہرت حاصل ہو جاتی ہے بلکہ محنت کی اہمیت آخری دم تک رہتی ہے ورنہ شہرت کے مقام پر پہنچ کر محنت سے منہ موڑنے والوں کا سفر الٹا گمنامی کی جانب چلنے لگتا ہے متاثر کن مواد اس خاصیت کا حامل رہتا ہے کہ پڑھنے والوں کی روح کو اپنے حصار میں جکڑ کر بغیر قدم اٹھائے جہانوں کی سیر کرواتا چلا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ پڑھنے والا لکھاری کے لفظ لفظ سے متفق ہوتا چلا جائے پوری ایمانداری کے ساتھ سچ کی سیاہی سے لکھا کوئی بھی جملہ وقتی طور پر اختلافی رائے قائم کر سکتا ہے آپ پر بس یہ لازم ہے وہ کبھی جھوٹ کے زمرے میں نہیں آنا چاہیے۔اللہ نے آج تک جتنی بھی تحریریں میرے دل و دماغ پر اتاری ہیں ان کی مجھ سے کوئی قیمت نہیں لی یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی تحریروں کو بیچنے کے خیال میں بڑی شرمندگی محسوس کی کہ اللہ نے تجھے جومفت دینے کے لیے عطا کیا تم اُس کی قیمت وصول کرو گے؟یہ سچ ہے کہ میرے جیسے گمنام لکھاریوں کی کتابیں اپنی جیب سے خرچ کرنے کے باوجود کوئی نہیں خریدتا اور شہرت یافتہ لوگوں کی کتابیں پبلشر پیسے دے کر شائع کرکے منافع کماتے ہیں اور ایسا بھی ہے کہ کئی گمنام لکھاری ساری زندگی اپنی فیملی کے ساتھ فاقوں میں گزار گے اور ان کے مرنے کے بعد ان کے کلام پبلشروں نے شائع کرکے خوب پیسے کمائے دنیا کامیاب لکھاری اُسے مانتی ہے جو پیسہ اور نام دونوں کما کر فائدے کا سودا کرتے ہیں مگر اللہ والوں نے اللہ کے دئیے ہوئے علم سے کبھی دنیاوی فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ اللہ کا دیا اللہ کے بندوں کو دیکر چلے گے ان کی آسمانی شہرت ہر آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔

کچھ زبانیں لفظوں کو ترستی ہیں اور کچھ لفظ زبانوں کو ترستے ہیں جب انہیں حسن انداز بیان کی زبان ملتی ہے تو آواز کا لبادہ اوڑھ کر سماعت میں اترتے چلے جاتے ہیں لفظ چاہتے ہیں یہ زبان بولتی چلی جائے اور کان چاہتے ہیں سماعت کا تسلسل نہ ٹوٹے کیونکہ لفظوں میں پوشیدہ منظر اپنے پردے ہٹاتے طلسماتی سیر سے مستفید کرتے چلے جاتے ہیں یہ لطف ایک بہت بڑے نشے کا نام ہیں جس نے ادبی دنیا بسا رکھی ہے اور میں بھی اسی دنیا کا ایک حصہ ہوں۔کچھ شہرتیں آسمان میں گمنامی کا مقام رکھتی ہیں اور کچھ دنیا کی گمنامیاں آسمانی شہرت کا درجہ رکھتی ہیں یہ سارا کھیل نیت پر مبنی ہوتا ہے جو جس جہان سے منسلک ہوتا ہے وہاں کا ہی نمائندہ کہلاتا ہے شہر توں میں حیات بسر کرتے عزتوں کے تخت پر بیٹھ کرزمین کے سینے میں اترنے والوں میں بڑی تعداد حق بیان کرنے والوں کی ہے جو زمین پر ایسے رہتے ہیں کہ آسمان پر چمکتے دیکھائی دیتے ہیں اور آسمان پر جاتے ہیں تو زمین پر بسنے والوں کے دلوں میں چمکتے دیکھائی دیتے ہیں

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-