نوجوان نسل کو پاکستان کے قیام کے پس منظر سے پوری طرح روشناس کرانے کی بہت سخت ضرورت ہے کہ آزادی ایک انمول نعمت ہے۔ 14 اگست پاکستان کے مسلمانوں کے لیے خصوصی طورپرایک یادگار اور تاریخی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ 14 اگست 1947ء کواسلام کا قلعہ پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیادپر دنیاکے نقشے پرمعرضِ وجودمیں آیا۔ وطن عزیزکے قیام کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی بے شمار قربانیاں پیش کیں۔ پاکستان کے حصول کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کیے۔ ان قربانیوں کا ذکر کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ کیا ہماری آج کی نوجوان نسل اس سے آشنا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے اس وطن کے قیام کے لیے کتنی قربانیاں دیں ہیں۔ ہمیں آزادی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے اور اس پر اللہ کا جتنا بھی شکر گزار ہوا جائے کم ہے مگر اس نعمت کی نا شکر گزاری کیلئے ہمارے اوپر ایسے سیاستدان مسلط کردیے جاتے ہیں جو سالہوں بھر اعلیٰ عہدوں پر عیاشی کررہے ہیں تو کیا انہوں نے کشمیر کے شہیدوں، یتیموں، بیواﺅں کا کہیں ذکر کیا تو جواب نہیں میں ملے گا ۔ نوکریاں امراءکی اولادوں کے لیے رہ گیئں یا ان کی قیمت اتنی بڑھا دی گئی کہ وہ خود بخود غریب کی پہنچ سے دور ہوگئی سیاست مالداروں کی میراث اور گھر کی لونڈی بن کے رہ گئی ۔نیک، شریف، صاحب کردار کی بجائے چور، ڈاکو پاکستان کے حصہ دار بنتے جا رہے ہیں۔
عزت مآب پاکستانیوں آج 14 اگست شہدائے پاکستان کے خون کی قسم کھائیں کہ سیاستدانوں سے ختم نبوت کا منشور، اس کا ضابطہ سامنے رکھ کر قوانین بنوائیں گے جس میں اب میرے رسول رحمت کا ارشاد دہرا سکیں کہ فاطمہ بنت عبداللہ کی بجائے فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو ہاتھ اس کے بھی کاٹ دیئے جاتے۔ شخصیت پرستی، اقربا پرستی کو ایک طرف رکھ کر جنرل باجوہ صاحب نے صاحب کردار پاکیزہ سیرت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ جو آج اسلام کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں اور ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں ۔
بھلا ان کے آبائو اجداد کی کیا قربانیان ہیں۔ تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے پاکستان کو نوالہ سمجھ کے لوٹ رہے ہیں۔ یوم آزادی ان شہداءکرام مجاہدین کا دن ہے، جو اپنا گھربار ، جان ، مال ، اولاد ، وطن سب کچھ قربان کر کے زندگی کی عظیم جدوجہد کے بعد اپنی منزل پا سکے۔ ان شہیدوں کی پاکیزہ روحیں عظیم روحوں کے جھرمٹ میں ہوں گی لیکن جو آج اس پاکستان کی دھرتی پہ بس رہے ہیں انہیں ذرا خیال نہیں کہ پاکستان اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر نہیں بنا تھا اس کے پیچھے سرورِ کون و مکاں کا عمل۔ مجدد الف ثانیؒ کا دو قومی نظریہ جدوجہد ،آزادی کو عوام تک پہنچانے کے لئے کتنی قربانیوں کے سفرطے کر کے ہر مشکل سے نمٹ کر یہ عظیم کامیابی حاصل کی ۔جشن آزادی ایک محاسبے کا دن ہے کہ بطور قوم ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ہم نے اپنے ملک کی ترقی کے لیے کیا کردار ادا کیا ؟ ہمارے بزرگوں نے کیا کارنامے انجام دیے ہیں؟کیا ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں؟ یا ہم ان کی راہ سے بھٹک چکے ہیں؟ ہمارے ملک کی سرحدوں کی محافظ تو ہماری مسلح افواج ہیں جو اپنا فریضہ بخوبی انجام دے رہی ہیں لیکن اس وقت ہمارے معاشی حالات ہو چکے ہیں کیا ہمارے سیاسی و سویلین ادارے بھی اسی دلجمعی سے ملک کی آن بان شان اور اس کی آزادی اس کی خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے پاک فوج جیسا جذبہ رکھتے ہیں؟
ویسے ہی دلجمعی سے کام کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے بچے، نوجوان نسل کو ان قربانیوں سے روشناس کرایا جا رہا ہے؟ اگر جواب مل جائےتو ہمیں بحیثیت قوم اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ رکھنا ہوگا اور پاکستان کو موجودہ مشکلات سے نکالنے کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہنا ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ ہم نے اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ہم نے آزادی جیسی اس عظیم نعمت کو کھونے نہیں دینا اور اقوام عالم میں ملک کا نام بلند کرنے کے لیے ہر فرد کو اپنی سطح پر کوششیں جاری رکھنا ہوں گی یہی آزادی کا تقاضا ہے اور یہی 14اگست کا درس ہے
اگر ہم خود کو اپنے قریبی لوگوں کو ملک کے مفاد میں ڈھال لیں تو قائد کا پاکستان مل جائے گا جس کی سب کو تلاش ہے اور یقیناً بابائے قوم کے چہرے پر مسکان سجی ہوگی۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-