جاگیر دارانا نظام کے اگے انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں

مقتول کی بیٹی ارباب خاتون نوحہ کناں ہے کہ پیپلز پارٹی کے ایم پی اے نادر خان مگسی و بلوچستان عوامی پارٹی کے ایم این اے خالد خان مگسی اور ایم پی اے میر طارق خان مگسی بلوچستان عوامی پارٹی نے 70 ایکڑ زمین حاصل کرنے کیلئے میرے والد پر تین جھوٹے مقدمے کروائے اور میری بہن کو ان وڈیروں نے ایک سال تک اغوا رکھ کر پریس کلب کوئٹہ کے ذریعے دارلامان کے حوالے کی جس سے ہم کو بازیاب ہوئی اور فیملی پر فائرنگ کرائی گی سن 2017ء سے لیکر موجودہ 2023ء اب تک اپنی زمین پر بااثر شخصیات کے قبضے کے خلاف بلوچستان سے اسلام آباد تک بیٹیوں کے ہمراہ انصاف کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھانے والا کسان امدادجوئیہ کوبلآخر ان وڈیروں اور جگیرداروں نے ابدی نیند سلا دیا مقتول امداد جوئیہ کی میت انکی جوان بیٹیوں نے اٹھائی، انصاف کے لیے نصیرآباد ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی لا رہی تھیں کہ جھل مگسی انتظامیہ نے رکاوٹیں ڈالیں اور لاش گنداواہ براستہ نوتال، ڈیرہ مراد جمالی لے جانے کی اجازت نہیں دی۔

یتیم بیٹیاں باپ کی لاش کو جھل مگسی سے اوستہ محمد لے جانے کے لیے روانہ ہوئیں تو انتظامیہ نے پھر رکاوٹ ڈالی اور کئی گھنٹے لاش کے ہمراہ لواحقین کو بھی یرغمال بنائے رکھا۔شام ڈھلتے ہی میت شہدادکوٹ سندھ کے راستے لے جانے کی اجازت ملی تو لاچار بہنیں ایمبولینس پر لاش رکھ کر روانہ ہوئیں، سندھ سے جیسے ہی بلوچستان کے ضلع اوستہ محمد کی حدود میں داخل ہوئیں تو اوستہ محمد انتظامیہ نے رکاوٹ ڈالی۔ تاہم اوستہ محمد کی باشعور عوام، سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنوں کی مداخلت کے بعد انتظامیہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی، مگر پھر بھی ایمبولینس کو شہر میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔شہریوں نے مقتول کسان امداد جوئیہ کی میت چارپائی پر رکھ کر کاندھوں پر اٹھائی اور دو کلو میٹر سے زائد کا پیدل سفر کرکے شہر اوستہ محمد کے یو بی ایل چوک پہنچے، جہاں مظلوم خاندان سے اظہار یکجہتی کے لیے سیکڑوں افراد جمع ہوئے اور میت جناح روڈ پر سٹی تھانہ کے سامنے رکھ کر احتجاجی دھرنا دیا گیا لیکن بے ضمیر مردہ ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے منہ سے أف تک نہیں نکلی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کو مکمل کرتے ہوئے عرصہ درازسے جھل مگسی شہر اور قریبی علاقے مکمل طور پر ایک خاندان کے زیر اثر ہیں۔ وہ خاندان قبائلی، سیاسی اور انتظامی طور پر بے انتہا طاقتور ہے۔ اگر جھل مگسی کو اسٹیٹ کے اندر اُس خاندان کا اسٹیٹ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا۔

جھل مگسی میں زرعی زمین پر قبضے کرنا اور مقامی باشندوں سے تیسرے درجے کے شہری کا سلوک روا رکھا جانا کئی دہائیوں بلکہ ایک صدی سے چلا آ رہا ہے۔جھل مگسی کے موضع کرمانی میں امداد جوئیہ کی چھوٹی زرعی زمین موجود ہے، جس پر کھیتی باڑی کرکے وہ اپنے خاندان کی کفالت کرتا تھا۔ امداد جوئیہ سے اُنکی کل ملکیت وہ زرعی زمین ہتھیانے کی کوشش کی گئی تو امداد جوئیہ نے مزاحمت کی اور انصاف کے لیے اعلیٰ انصاف کے اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے، انسانی حقوق کمیشن تک پہنچ کر فریاد کی، مگر کہیں سے بھی انصاف نہ ملا، بلآخر موت مل گئی۔اوستہ محمد کی سڑک پر رات کی تاریکی میں پڑی مقتول کسان امداد جوئیہ کی میت پر شدت غم سے نڈھال، سسکتی، بلکتی اسکی جوان بیٹیاں ریاست اور ریاستی اداروں سمیت انسانی حقوق کمیشن اور ہر اس جمہوری جماعت سے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں، کوئی تو انکی فریاد سُن لے کوئی تو انہیں انصاف دلوائے۔

یا پھر یتیم بیٹیاں اپنے کاندھوں پر باپ کا جنازہ دفنانے کے ساتھ ہر اُس ادارے کو بھی دفنا دیں جو مملکت خداداد میں انصاف کے دعویدار ہیں۔ زمین کے تنازعہ پر امداد حسین جوئیہ نامی زمیندار کو ظالم وڈیروں نے سرعام قتل کر دیا ہے اور اس کی بیٹی انصاف کے لیے اپیل کر رہی ہے ۔ جب تک اس بیٹی کو انصاف نہیں ملے گا جوئیہ برادری اور پاکستان کی عوام پرامن احتجاج کے ذریعے اپنی جدوجہد جاری رکھیں کے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-