چوروں کاساتھ چھوڑنا ہوگا ، ورنہ غلامی مقدر ہوگی۔۔۔

1970کے بعدپارلیمانی جمہوریت آ گئی اور اس کے سائیکل سوار سیاست دان جو آج مقتدرشخصیات ہیں انکے ہونہار،نونہال آج ارب پتی ہیںاور کھلے بندوں اپنی بیش بہادولت کا بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔اعلیٰ عہدوںپرفائزسرکاری افسر،سیاستدان اورٹیکنوکریٹ بیرونی ممالک میں عیش و عشرت کی زندگی گذار رہے ہیں ان میں بیشتر کے خلاف بھاری رشوت اورسنگین بدعنوانی کے مقدمات عدالتوں مین زیر سماعت ہیں،چمک نے بہت سوں کو این آراودے کر ان کی حرام کی کمائی کو جائز قرار دیکر ملک سے فرار کروایا چند ایک مقدرکے سکندرایسے بھی ہیں جوبھولی بھالی عوام کو سہانے خواب دکھا کر دوبارہ مملکتِ خدا دادپاکستان کی قسمت کے مالک بن گئے ۔کچھ تو ایسے تھے جومملکتِ خدادادپاکستان کے مالیاتی شعبے کے نگران بھی تھے اورپالیسی سازبھی،جب تک ہواکارخ موافق رہاوہ سیاہ وسفیدکے مالک بنے رہے۔ان کواپنااوران کے مہربانوں کامفاد،جن کے وہ ممنونِ احسان تھے، اس قدرعزیزتھاکہ ستم رسیدہ عوام کی بھلائی کاخیال تک بھلابیٹھے،ملک توکیا،آنے والی نسلوں تک کوگروی رکھ گئے ۔
چین کے انقلابی قائدماو ¿زے تنگ اورچواین لائی جو ہمارے بعد آزاد ہوئے آج دنیا کی سپر پاور ہے جبکہ ہمارے نہاد لیڈروںنے قوم کو بھکاری بنا دیا ، انقلاب چین کے بعد پہلی نسل کی قربانیاں رنگ لائیں اورچین اب دنیا کاایک عظیم ترین ملک بن گیاجبکہ چین سے پہلے آزاد ہونے کے با وجود ہم ہاتھ میں کشکول لئے پھرتے ہیں ، دنیا ہمیں بھکاری سمجھتی ہے امریکاکی بارگاہ میں سربسجودہیں،جس کے منشی اورکارندے حکم چلاتے ہیں اورہم بلاچوں چراں حکم بجالاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم ان کارندوں میں سے بہت سے ہماراہی کھاتے ہیں اورخوب کھاتے ہیں مانگ تانگ کے۔کئی دفعہ ناک سے لکیریں کھنچ کر،جوقرضہ ہم غیرممالک یامالیاتی اداروں سے لیتے ہیں اس میں سے یہ”فرشتے”مشاورت اورخدمات کے نام پربہت کچھ ہتھیالے جاتے ہیں۔”مالِ غنیمت”میں سے کچھ سکے ’مقامی ہم جولیوں”کی جھولی میں بھی ڈال دیتے ہیں تاکہ نہ صرف اصل کھیل پردوں کے پیچھے چھپارہے بلکہ سنہری کلغیوں والے مرغانِ چمن بہارکے گیت اس وقت تک گاتے رہیں جب تک حکومت نہ بدل جائے۔
حکومت بدلتے ہی یہ موسمی مینڈک تھوڑی دیرکیلئے اس طرح خاموش ہوجائیں گے جیسے دلدل میں گھس گئے ہوں مگرجلدہی پھرنکل آئیں گے۔راگ پھرشروع ہوگامگرسرتال پہلے سے مختلف۔اب خانہ بربادی کاذکرہوگا،ستیاناس اوربربادی کے ایسے قصے سنائیں جائیں گے کہ سننے والاتوبہ توبہ کاوردکرتے کانوں کوہاتھ لگائے اورسوچے کہ یہ حسین ملک کتنابد قسمت ہے کہ اس میں بھیڑیئے نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ ان میں سے کئی ایک اعلیٰ مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔یہ طالع آزماایسی چکنی مٹی سے بنے ہوتے ہیں کہ عوام کے اعتماد کی مقدس امانت بھی ان کی گھٹی میں پڑے حرص وہوس کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی،نہ صرف پوری ڈھٹائی سے وہ موقع ملتے ہی کھل کھیلتے ہیں بلکہ اپنی”جرت وبہادری”پرفخرکرتے ہیں۔بعدمیں پکڑے جائیں توبھی اپنے کئے پرنادم ہونے کی بجائے یوں سینہ تان کراپنادفاع کرتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کوبھی یہ کہناپڑ جاتا ہے کہ”کرپٹ عناصرشرمندہ نہیں بلکہ وہ اکڑ کر بڑے فخر کیساتھ چلتے ہیں……….ان سے کئی کئی ملین ڈالرعدالتوں کے حکم پرحکومت نے وصول بھی کئے،اس کے باوجودوہ گالف کھیل رہے ہیں، معاشرہ کوان سے الگ تھلگ رہناچاہئے اوران کا بائیکاٹ کرنا چاہئے”۔خطاتومعاشرہ کی ہے۔اچھائی برائی میں تمیزکمزورپڑجائے،عجزوانکسارکمزوری کی علامت تصورہونے لگے،برائی سے بچنابزدلی ٹھہرے اورچور ڈاکو رہزن کیلئے دلوں سے نفرت مٹ جائے توکیوں نہ بھیڑیئے بھیڑوں کے گلے کے نگہبان کاکردار ادا کریں۔
عموماًکہاجاتاہے کہ انسان کی سرشت میں مضمر ہے کہ ہرانسان دل کی گہرائیوں میں نہ صرف نیکی اوربدی کاواضح احساس رکھتاہے بلکہ وہ برائی کے خلاف جدوجہد کے جذبہ سے بھی عاری نہیں۔حالات کاجبرالبتہ اسے خاموش رہنے پرمجبور کردیتاہے۔روزمرہ مشاہدہ اسے واضح اشارے دیتاہے کہ خواہ مخواہ”پنگا” لینا سراسر حماقت ہے۔جوسرپھرے پرائی آگ میں کود پڑتے ہیں ان کے نہ صرف پاو ¿ں جھلس جاتے ہیں،بعض اوقات یہ تن سوزی انہیں عالمِ نزع سے عدم کی منزل تک لیجاتی ہے۔عقلمندی،انہیں ناانصافی،ظلم اوربے رحمی سے نبردآزماہونے کی بجائے خاموش رہنے اوربہت کچھ”پی جان”کی ترغیب دیتی ہے ،یوں ان کی قوتِ برداشت کادائرہ پھیلتاجاتاہے جس سے برخودغلط ظالموں کاحوصلہ بڑھتا ہے۔
وہ چنگیزخان کے لشکریوں کی طرح ہرمرغزارپرچڑھ دوڑتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے طوفان کے سامنے نہ صرف نہتے اوربے بس عوام کی طاقت جواب دے جاتی ہے بلکہ انسانیت کی روح تک ان کاساتھ چھوڑدیتی ہے۔ آٹھوں پہر گردش کرنے والاآسمان پھرعجیب وغریب منظردیکھتاہے۔
ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی یہ سوچنے یامعلوم کرنے کی زحمت بھی گوارہ کی کہ مملکتِ خدادادپاکستان کیونکر صفحہ ہستی پرنمودارہوا؟بانیانِ پاکستان کے خواب کیاتھے؟آرزوئیں،تمنائیںاورآدرش کیاتھے؟
بابائے قوم نے کیاسوچاتھا،کیاچاہاتھا،کون سی منزل متعین کی تھی؟کیسے وہاں تک پہنچناتھا؟وہ منزل کن اندھیروں میں کھوگئی،نشانِ منزل بھی کوئی دکھائی پڑتاہے یانہیں؟
تاریخ گواہ ہے کہ آزادی توکبھی بھی التجاو ¿ں اوردرخواستوں سے نہیں ملی۔صحرائے سینامیں چالیس سال تک بھٹکنے کے بعدحضرت موسیٰ کی قوم کوبھی بالآخرمنزل مل گئی تھی۔احساسِ زیاں اگردامن گیرہوجائے توکیا خبرہم بھی گم گشتہ راہوں کوازسرِنوپالیں۔اپنی اپنی ذات کی قیدسے آزادہوجائیں۔ذاتی مفادکوہی زندگی کاواحد مقصدسمجھناترک کردیں۔ملک وقوم کی فلاح وبہبود کو نہ صرف اپنافرض سمجھیں بلکہ اس کیلئے تھوڑی بہت قربانی دینے کیلئے تیارہوجائیں۔کیاوہ ایک نئی صبح نہیں ہوگی جب ہم میں سے کئی ایک دیوانے سچ کوبرملاسچ کہنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔کتنا ہی خوشگواراجالاہوگاجب جماعتی وفاداریوں سے بالاترہو کر،یاری دوست اوربرادری کی زنجیروں سے آزادہو کر ہمارے اربابِ اختیارحق وانصاف کے تقاضے پورے کریں گے،قائداعظم کے حسین چہرہ پر جمی گردجھڑنے لگے گی۔موجودہ وزیر اعظم پر غریب عوام کی کافی توقعات ہیں اب دیکھتے ہیں یہ بھی اپنے پیشروﺅں کے نقش قدم پر چلتے ہیں یا قائد کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، وقت کا انتظار ضروری ہے۔۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں