ملزمان نے بیٹے کو جیل میں جان سے مارنے کی دھمکی دی، بیٹے کی جان بخشنے کے لیے پانچ لاکھ روپے بھی دیے، واقعے میں نامزد ملزم نعمان کے والد نے خاتون اور بلیک میلر گروہ کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا
اسلام آباد (کرائم ڈیسک) ٹریل 3 پر لڑکی سے زیادتی کے ڈراپ سین کے بعد واقعے میں نیا موڑ آ گیا ،ٹریل 3 واقعے میں نامزد ملزم نعمان کے والد کی طرف سے مقدمہ درج کروا دیا گیا۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا کہ بیٹے کو کوہسار پولیس نے گرفتار کیا تو معلوم ہوا کہ زیادتی کے کیس میں نامزد ہے۔بیٹے کی گرفتاری کے بعد بلیک میلرز کے گروپ نے رابطہ کیا۔
بیٹے کی جان بخشنے کے لیے ملزمان نے 10 لاکھ روپے کا بھتہ مانگا۔پیسے نہ دینے کی صورت میں بیٹے کو جیل میں مارنے کی دھمکی بھی دی گئی۔خوف کی وجہ سے پانچ لاکھ روپے ملزمان کے حوالے کیے گئے۔بیٹے کو بچانے کے لیے 5 لاکھ روپے قرض لے کر دئیے۔ملزمان اب بھی اسلحے کی نوک پر مزید رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، پولیس نے نعمان کے والد کی مدعیت میں خاتون اور بلیک میلر گروہ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
خیال رہے کہ وفاقی پولیس نےٹریل تھری پر لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریپ کی کہانی جھوٹی نکلی ہے۔ ملزم نے مخالف کو پھنسانے کیلئے یہ ڈرامہ رچایا۔ملزم نعمان کا اپنے ساتھی انور سے جھگڑا ہوا تھا جس کا بدلہ لینے کیلئے نامزدملزم نے ساتھی انور سے بدلہ لینے کیلئے ایک گروہ کو اجرت پر لیا، یہ گروہ لوگوں کو ورغلا کر بلیک میل کرتا اور ان سے بھتہ وصول کرتا ہے۔
پولیس ترجمان کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق مورخہ 14جولائی 2023کو اسلام آباد کیپیٹل پولیس تھانہ کوہسارکو خاتون کی جانب سے درخواست موصول ہوئی کہ اسکوٹریل تھری پر جنسی ز یادتی کا نشانہ بنایا گیا، جس پر تھانہ کوہسارپولیس نے فوری مقدمہ نمبر 568/23مورخہ 14جوالائی 2023بجرم 376ت پ درج کیا،آئی سی سی پی او ڈاکٹر اکبر ناصر خاں نے وقوعہ کا نوٹس لیتے ہوئے جلد از جلد ملزم کو گرفتار کرنے اور مقدمہ کو میرٹ پر اور حقائق پر مبنی یکسو کرنے کے احکامات جاری کئے جس پرسینئر پولیس افسران کی زیر نگرانی افسر مہتمم تھانہ شفقت فیض معہ پولیس ٹیم نے تمام تر سائنسی تقاضوں اور تکنیکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام حقائق کی جانچ پڑتال کی ،جس پر ٹریل تھری پر لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعے کی کہانی جھوٹی نکلی، معاملہ ملزم اور اس کے ساتھی کے درمیان لڑائی کا نکلا،نامزدملزم نعمان کا اپنے ساتھی انور سے جھگڑا ہوا،جس نے بدلہ لینے کیلئے ایک گروہ کو اجرت پر لیا،گروہ میں ڈاکٹر سدرہ اقبال جو خود کو صحافی بھی کہتی ہے ، راولپنڈی کی رہائشی صائمہ،جعلی صحافی شکیل احمد جو خود کو ایک اخبار کا بیورہ چیف اورجعلی پولیس افسر منظور الحق جو خود کا تعارف پنجاب پولیس کا سب انسپکٹر کرواتا ہے شامل ہیں،انور نے نعمان پر زیادتی کا جھوٹا الزام لگانے کیلئے راولپنڈی کی رہائشی صائمہ نامی لڑکی سے رابطہ کیا،صائمہ نے شیخوپورہ کی رہائشی سدرہ سے رابطہ کر کے نعمان کے ساتھ ریپ کا ڈرامہ کرنے کا منصوبہ بنایا،منصوبے کے مطابق سدرہ نے ملزم کو لے کر ٹریل تھری پر جانا تھا،جہاں پر سدرہ نے ریپ کا ڈرامہ کرکے چیخ و پکار کرناتھی،اسی دوران گروہ کے باقی لوگوں نے موقع پر پہنچ کر ویڈیوز بنانی تھیںاورویڈیوز بنا کر ملزم اور اس کی فیملی کو بلیک میل کرکے بھتہ وصول کرنا تھا،سدرہ نے ملزم کے ساتھ ٹریل تھری پر ملاقات کی لیکن اس کے ساتھی موقع پر نہ پہنچ سکے،سدرہ کافی انتظار کے بعد ملزم کے ساتھ واپس راولپنڈی چلی گئی،اس کے بعد اس نے تھانہ میں ایف آئی آر درج کروائی اور واپس شیخوپورہ چلی گئی،پولیس نے معاملے کی ہر زاویے سے تفتیش کی،پولیس نے لڑکی کو تھانہ طلب کیا تومدعیہ مقدمہ سدرہ نے پہلے تو ٹال مٹول سے کام لیا لیکن بعد میں اس نے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے تمام حقائق اور منصوبے کے متعلق بتایا،ٍپولیس ٹیم کی تفتیش سے یہ ثابت ہوا کہ یہ ایک گروہ ہے جو لوگوں کو ورغلا کر بلیک میل کرتا اور ان سے بھتہ وصول کرتا ہے،سدرہ کے خلاف شیخوپورہ اور مرید کے میں دومقدمات درج ہیں،گروہ کا ایک کارندہ انوارالحق سابقہ ریکارڈ یافتہ ملزم ہے،اس کیس کے متعلق سوشل میڈیا پر بھرپور مہم چلائی گئی جبکہ کیس زیر تفتیش تھا۔
پولیس نےشہریوں سے کہا ہے کہ حتمی رپورٹ آنے تک افواہوں پر یقین نہ کریں،ایسی مہم پولیس کی تفتیش پر اثرانداز ہوسکتی جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔