کیا واقعاتِ کربلا محض تاریخی واقعات ہیں؟

شہادتِ امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا کے حوالے سے کچھ شکوک وشبہات پیدا کیے جاتے ہیں کہ جو کربلا میں واقعاتِ وقوع پذیر ہوئے اور اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی توہین اور بے حرمتی کے واقعات من گھڑت کہانیوں پر مشتمل ہیں، علاوہ ازیں یہ تاریخی واقعات ہیں اور تاریخی واقعات میں کمی بیشی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے ان کی اصل حقیقت کا پتہ نہیں چلتا، لہذا اس پر کوئی تاکیدی حکم جاری نہیں ہو سکتا۔ کیا واقعہ کربلا اور اس سے متعلقہ تمام امور کمزور روایات پر قائم ہیں یا یہ تسلیم شدہ حقائق ہیں؟ یاد رکھیں! اس پورے واقعہ کی بنیاد احادیثِ صحیحہ ہیں جو آپ ﷺ نے مستقبل کی غیبی خبروں کے طور پر امت تک پہنچائیں۔ یہ واقعات مستند روایات پر قائم ہیں۔ نہ صرف مورخین بلکہ ان سے بڑھ کر بڑے بڑے ائمہ محدثین، ائمہ فقہاء، ائمہ متکلمین اور جمیع اکابرینِ امت نے ان واقعات کی تصدیق کی ہے۔واقعہ کربلا کے حوالے سے واعظین اور ذاکرین کی بیان کردہ بعض ایسی تفصیلات ہیں جن کی سند نہیں اور جن کی صحت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اصل واقعہ کربلا اور اس کی بہت ساری جزئیات کا بھی اس ایک بات کا بہانہ بناکر انکار کردیا جائے؟ واقعہ کربلا اور یہ ظلم و زیادتی ان امور میں سے ہے جن کی نشاندہی حضور ﷺ نے خود فرمادی تھی اور ان کا ذکر احادیثِ صحیحہ میں موجود ہے:

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: هلاک امتی علی یدی غلمة من قریش.
’’قریش کے نوعمر لونڈوں کے ہاتھوں سے میری امت ہلاک ہوگی۔‘‘اس فرمان کا اشارہ اولاً اسی واقعہ کربلا کی طرف تھا۔(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوه، رقم: 3410)

2۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں بیان کیا کہ اغیلمۃ من قریش میں سے پہلا شخص یزید ہے۔
بعض لوگوں نے یہ گمان ظاہر کیا ہے کہ یزید واقعہ کربلا کا ذمہ دار نہیں تھا۔ ان لوگوں کے لیے افسوس ہے اور یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کیونکہ یزید کا تو نام لے کر حضور ﷺ نے بیان کردیا کہ یہ ذمہ دار ہے۔ افسوس! آج لوگ اس کے بچاؤ کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور حضور ﷺ کے فرمان کی نفی کر رہے ہیں۔

3۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے سنِ شہادت اور مقامِ شہادت دونوں کی نشاندہی اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی فرمادی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یُقْتَلُ حُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ رضی الله عنه عَلَی رَأْسِ سِتِّینَ مِنْ مُهَاجَرَتِی. (المعجم الکبیر، طبرانی، 3: 105، رقم: 2807)
’’حسین بن علی کو میری ہجرت کے 60 ویں سال کے آغاز پر شہید کردیا جائے گا۔‘‘مقامِ شہادت کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: أَخْبَرَنِی جِبْرِیلُ عَلَیْهِ السَّلَامُ أَنَّ هَذَا یَعْنِی اَلْحُسَیْن یُقْتَلُ بِأَرْضِ الْعِرَاقِ وَهَذِهِ تُرْبَتُهَا. (الخصائص الکبریٰ، 2: 125) ’’مجھے جبرائیل امین نے خبر دی ہے کہ یہ حسین عراق کی سرزمین پر قتل کردیا جائے گا اور یہ وہاں کی مٹی ہے۔‘‘سمجھانا یہ مقصود ہے کہ واقعہ کربلا کا تفصیلی ذکر کتبِ حدیث میں بھی ہے اور یہ ان امور میں سے ہے جن میں حضور ﷺ نے مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی غیبی خبریں دے دی تھیں۔ حضور ﷺ نے وہاں کا مقام بھی بتادیا تھا، وہاں کی سرخ مٹی بھی دے دی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ علیہ السلام کو شہید کرنے کے ذمہ دار بد بخت یزید کا نام بھی بتادیا تھا۔

4۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لا یزالُ أمرُ أمتی قائمًا بالقسطِ حتی یکونَ أولُ من یثلمُهُ رجلٌ من بنی أمیةَ یقالُ له: یزیدُ. (مسند ابو یعلی، رقم: 871) ’’میری امت کے دین کا معاملہ عدل پر قائم رہے گا حتی کہ ایک شخص بنو امیہ میں سے آئے گا جو اس میں رخنہ ڈالے گا اور اس کا نام یزید ہوگا۔‘‘یزید سے مخفی ہمدردی رکھنے والے، اس کا درد رکھنے والے، اس کے ایمان کی فکر کرنے والے، توبہ کے ذریعے اسے جہنم سے بچانے والے، کاش حضور ﷺ کی محبت اور راحتِ جان کا فکر کرلیں اور غور سے ان احادیث کو پڑھیں۔

5۔ ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے فرمایا: لَیَفْتِقَنَّ رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ أَبِی سُفْیَانَ فِی الْإِسْلَامِ فَتْقًا لَا یَسُدُّهُ شَیْءٌ. (الفتن، نعیم بن حماد، 1: 281)’’ابو سفیان کی اولاد میں سے ایک شخص ایسا ہوگا جو اسلام کے اندر ایسا شگاف ڈالے گا کہ اس کو قیامت تک کوئی چیز بند نہیں کرسکے گی۔‘‘درج بالا تمام احادیثِ مبارکہ میں شہادتِ امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کربلا کی طرف اشارہ ہے جس کی حضور ﷺ نے واضح نشاندہی فرما دی تھی۔ صحابہ کرام کے بکثرت آثار بھی موجود ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم کہا اور سنا کرتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کربلا میں ہوگی۔ لہذا واقعہ کربلا کو قصہ و کہانی کہنا اور اسے تاریخی واقعات کہہ کر ان کی اہمیت کو کم کرنا، یہ اپنے ایمان کی جڑوں کو کاٹنا ہے۔ ایسا کرنا حضور ﷺ کے فرمودات جنہیں ازواج مطہرات اور کثیر صحابہ کرامؓ نے روایت کیا ہے، ان کا انکار کرنا ہے۔ جب حضور ﷺ نے ذمہ داری بھی متعین کردی کہ وہ شخص جو اس تباہی کا باعث بنے گا اور ذمہ دار ہوگا، وہ یزید ہوگا تو اب معلوم نہیں کہ لوگوں میں یہ جرأت کہاں سے آجاتی ہے کہ وہ بہانے بناکر یزید کو تحفظ دیتے ہیں اور اس سے ذمہ داری کا بوجھ اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر صرف مؤرخین نے بات کہی ہوتی تو معاملہ کچھ اور ہوتا مگر یہ تو دلائل النبوۃ اور معجزاتِ نبوت میں سے ہے کہ حضور ﷺ نے نہ صرف یزید کا نام لے کر بتادیا بلکہ مقامِ شہادت اور سنِ شہادت تک کی نشاندہی فرما دی۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-