گزشتہ سال اپریل سے لے کر اب تک سیاسی عدم استحکام نے ملک کی معاشی صورتحال کو ابتر کر دیا ہے اقتدار اور طاقت کی اس کشمکش میں عوام کے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔
ہر برسر اقتدار آنے والی حکومتیں سیاسی انا میں اس حد تک آگے بڑھ چکی ہیں کہ سوائے اقتدار کی حواس کے کوئی چیز نظر نہیں آرہی یہ حصول اقتدار اور طولِ اقتدار کیلئےکسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔جس کے باعث ملک دوالیہ ہو چکا ہے اور عوام کا بھرکس نکل گیا ہے
پی ڈی ایم برسراقتدار حکومت نے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر عوام کو غربت اورمہنگائی کے مسائل میں ریلیف دیں گے اس کے برعکس آئی ایم ایف کی ہر شرط کو منظور کرتے ہوئے عوام کیلئے غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری کے مسائل میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا جس کے باعث عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے
موجودہ حکومت کے قائدین نے برسر اقتدار آنے سے پہلے عوام کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد کرانے کے دعوے کئے تھے پھر اقتدار میں آنے کے بعد قرض بحالی کیلئے آئی ایم ایف کے گرد ہی گھومنا شروع کردیا
اور آخرکار آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو حکومت بڑی خوشخبری بنا کر پیش کر رہی ہے۔حکومت کے لئے یہ اچھی خبر ہو سکتی ہے مگر عوام کے لئے بالکل نہیں،کیونکہ معاہدے پر اب عملدرآمد شروع ہوگا اور مہنگائی کی رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی حکومت نے آئی ایم ایف کی ہر شرط مان لی ہے تب جا کے یہ معاہدہ ہوا۔
ایک وقت تھا کہ جب آئی ایم ایف پروگرام کو ہر حکومت غلامی کا طوق سمجھتی تھی ،اس کے بارے میں ہر دور کی اپوزیشن کہتی تھی کہ یہ ذلت اور ملک کی خود مختاری کو گروی رکھنے کی بد ترین شکل ہے آج منظر ہی کچھ اور ہے سارے طور طریقے ہی بدل گئے اس معاہدے کو کامیابی قرار دے کر خوشخبری سنائی جا رہی ہے ملک پر تین ارب ڈالر کا قرضہ مزید چڑھ گیا اور ہماری ڈھٹائی ملاحظہ کیجئے کہ اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ مگر یہ شادیانے بجا بھی تو کیوں نہ کہ حکومت نے عوام پر 14 ماہ میں ہر ستم ڈھایا
ہر شرط مانی، منتیں کیں امریکی اثر و رسوخ بھی استعمال کیا گیا تب بات بنی بہر حال اس بار چند دعوے اور باتیں کھل کر سامنے آئیں اور بھرم ٹوٹ گئے۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر نہیں چل سکتے۔
حکمران لاکھ بڑھکیں ماریں کہ آئی ایم ایف کی غلامی قبول نہیں کریں گے اور یہ طوق اتار پھینک دیں گے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں ہمارے حکمرانوں نے 75 سال کی بے مثال کارکردگی کی وجہ سے ملک کو دنیا کی کرپٹ ترین معیشت بنا دیا جو قرضوں کے بوجھ تلےاسی دبی کے پھر اس دلدل سے باہر نہیں آسکی اور قرضہ نہ ملنے کے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ یہ سیاسی نعرہ صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے لگایا جاتا ہے ہر پچھلی حکومت فلک شگاف نعرہ بلند کرتی تھی کہ ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دیا، ہم آئے تو آئی ایم ایف کا کشکول توڑ دیں گے، کسی صورت معاشی غلامی قبول نہیں کریں گے مگر سب نے دیکھا کہ نہ صرف اس غلامی کو تسلیم کیا گیا بلکہ تسلیم کرنے کے لئے اتنا زور لگایا کہ اگلی پچھلی تمام روایات شرمندہ ہو گئیں۔ سو ایک تو عوام کو یہ سمجھ آ جانی چاہئے کہ آئی ایم ایف کے خلاف صرف باتیں کی جاتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کل عمران خان اقتدار میں تھے تو یہ کہتے رہے کہ آئی ایم ایف کی ناجائز شرائط نہیں مانیں گے چاہے وہ معاہدہ کرے یا نہ کرے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کے برعکس عوام کو ریلیف دینے کے فیصلے کئے پٹرول 150 روپے لٹر پر فکس کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف شدید ناراض ہو گیا۔ معاہدہ توڑنے کی پاداش میں اس نے پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی معیشت کے سارے کس بل نکال دیئے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف اور موجودہ حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔
دن نہیں گزرتا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نہ ہوتا ہو۔بلکہ اب تو صبح قیمت کچھ ہوتی ہے اور شام کو کچھ ۔ادارہ شماریات کی مہنگائی سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ملک میں رواں ہفتے مہنگائی میں صفر اعشاریہ 20فیصد اضافہ ہوا۔مہنگائی میں تیزی سے اضافے کے باعث پاکستان دنیا کا چھٹا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے ۔ورلڈ آف اسٹیٹکس نے دنیا میں مہنگائی کے حوالے سے سرفہرست ممالک کے نام جاری کئے ہیں ،جس میں پاکستان چھٹے نمبر پر آگیا ہے ۔ملک میں مہنگائی کی شرح 38فیصد ہے۔ہر ضروری شے کی قیمت میں50فیصد سے زائد اضا فہ ہوا ہے ۔اب عوام کے لئے حقیقی معنوں میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے ۔لوگ ان حالات سے سخت گھبرائے ہوئے ہیں ،ہر شخص کی زبان پر یہی سوال ہے کہ اب آگے کیا ہوگا۔۔۔؟
موجودہ حکومت ان حالات کا ذمہ دار تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جن شرائط پر معاہدہ کیا تھا ،ہم انہیں پورا کرنے اور عوام سے ہر سبسڈی ختم کرنے پر مجبور ہیں جس کے نتیجے میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے ۔حالات اس نہج تک پہنچنے کے باوجود بالا ئی سطح پر کوئی سنجیدہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک کو اس حالت تک پہنچانے میں سب برابر کے شریک ہیں حالات کی ابتری کا سلسلہ روکنا بظاہر مشکل ہے ۔مہنگائی بڑھنے کے ساتھ آمدن میں اضافے کے امکانات بھی معدو م ہو چکے ہیں ۔اب اس مشکل وقت میں جینے اور حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لئے عوام کو انفرادی طور پر ہی اقدامات کرنا ہوں گے ۔حکمرانوں سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستانی عوام کی غربت یا بری حالت سے کوئی غرض نہیں آئی ایم ایف کا کردار ایک سرمایہ دارانہ نظام اور سوچ سے ہے۔ یہ اعدادوشمار بھی موجود نہیں کہ دنیا کے ان ممالک میں کبھی خوشحالی نہیں آئی ہو جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے وابستہ رہے ہیں۔ غربت کو کم کرنا اور معیشت کو مستحکم کرنا آئی ایم ایف کا مقصد ہی نہیں۔ معیشت مضبوط ہو گئی، عوام خوشحال ہو گئے تو وہ ملک اس کے چنگل سے نکل جائے گا اور آئی ایم ایف یہ نہیں چاہتا کہ جو ملک ایک بار اس کے شکنجے میں آ جائے اس سے باہر نکلے۔۔۔
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-