بھوک تو صرف مزدور کا مقدر ہے۔

لیبرڈے کو دنیا بھر میں الگ الگ تاریخوں اور الگ الگ ناموں سے منسوب اور پاکستان میں یکم مئی/ یوم مزدور سے منسوب کیاجاتاہے سن 1886ء تقریبأ أج سے 137سال پہلے مزدور کی زندگی بہت مشکل تھی ایک ہی دن میں پندرہ،سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اگر مزدور أرام کیلئے مالک سے چند لمحے مانگتا تو مالک أگ بگولہ ہوکر سرخ و لال ہوجاتاتھا سیدھے لفظوں میں مالک مزدور کی تھکاوٹ اور پسینے کے بجائے ڈیوٹی کو جاری رکھنے میں ترجیح دیتاتھا۔ ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدورکے ذمہ ہوتے۔ ایسا کوئی قانون لیبر لاء نہ تھا کہ مزدور کے زخمی ہونے کی صور ت میں اس کا علاج کروایا جائے، مزدور کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی صوابدید پرتھا۔ وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا جس کو چاہتا ملازمت سے ہٹا دیتا۔ ہفتے میں ساتوں دن ہی کام کرنا پڑتا چھٹی کا کوئی تصور ہی نہ تھا ان تمام مسائل کے حل کے لئے امریکہ اور یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں۔ سن 1884 ء میں فیڈریشن آف آرگنائز ڈ اینڈ لیبر یونینز نے اپنا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی۔ قراداد میں کچھ مطالبے رکھے گئے۔ جن میں سب سے اہم مطالبہ تھا کہ مزدوروں کے اوقات کاروں کو سولہ گھنٹو ں سے کم کرکے أٹھ گھنٹے کیا جائے۔ مزدوروں کا کہنا تھا کہ آٹھ گھنٹے کام کے لئے آٹھ گھنٹے آرام کے لئے اور آٹھ گھنٹے ہماری مرضی کے۔

یہ مطالبہ یکم مئی سے لاگوکرنے کی تجویز پیش کی گئی لیکن اس مطالبے کوتمام قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں یکم مئی کو ہی ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور جب تک مطالبا ت نہ مانے جاتے یہ تحریک جاری رہتی۔ سولہ گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے نام سے نعرہ بلند ہوا جو بہت ذیادہ فیمس ہوا اسی وجہ سے اپریل 1886تک اڑھائی لاکھ سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے اس تحریک کا آغاز امریکہ کے شہر شکاگو سے رونما ہوا جو یکم مئی/لیبرڈے/مزدوریوم کا دِن آہستہ آہستہ خاص طور سے مزدور یا کم مراعات یافتہ طبقے کی سماجی اور اقتصادی محرومیوں اور کامیابیوں کے ساتھ نتھی ہوگیا عالمی سطح پر مزدوروں کے مسائل میں غربت، بیروزگاری، نیم بے روزگاری، نوکری کا محفوظ نہ ہونا کےعلاوہ آزادئ اتحاد اور سماجی تحفظ شامل ہیں۔تمام ادیان کی طرح مذہب اسلام نے بھی مزدور کی حثیت اور اہمیت پر خاص روشنی ڈالی ہے اور اِسی وجہ سے پیغمبر اسلام کو آخری حرف تسلئ مزدوراں کے طورپیش کیا جاتا ہے اسلام نے معاشرے کو امن وآشتی کا گہوارہ بنایااورتقسیم کار کے فطری قانون کے ذریعہ کسی کو مالک تو کسی کو مملوک ،کسی کو خادم تو کسی کو مخدوم،کسی کوحاکم تو کسی کو محکوم قراردیا اسی بناء پر باہمی حقوق وفرائض عائد کئے گئے اوراسی کی خاطرایک دوسرے کے ساتھ شفقت وہمدردی کی تعلیم دی گئی۔محنت مزدوری کرنا، ہاتھ سے کماکر کھانا، کوئی ذریعہ معاش اِختیار کرنا،کسی ہنر، فن، کاریگری اور صنعت وحرفت کو ذریعہ معاش کیلئے بطورِ پیشہ اِختیار کرنا کوئی معیوب چیز نہیں،متعدد اَنبیاء، صحابہؓ اور سلف صالحین نے حصولِ رزق کے لئے کئی پیشوں کو اِختیارفرمایاہے اس لئے محنت کش,غریب طبقہ قابل احترام ہے یہ اپنی دن رات کی محنت سے وہ کارنامے انجام دیتاہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی لیکن اس کے لیئے افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو اس کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کی محنت کو تسلیم کیا جاتا ہے، محنت کش افراد گھروں اور عمارتوں کو حسین اور خوبصورت بنا کر ملک اور شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں، کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنے خون پسینے کی محنت سے وہ غلہ اور اناج تیار کرتے ہیں جو ہماری صحت کا ضامن بنتا ہے وہ رزق کی خاطر دوسروں کے گھروں کی تعمیر میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنے لیے زمین پر ایک گھر بھی نہیں بنا سکتے، دوسروں کی فرمائشوں کے مطابق گھروں کی تزئین اور آرائش میں ساری زندگی صرف کردیتے ہیں لیکن اپنے لیے خوشی کا ایک لمحہ بھی نہیں سمیٹ سکتے۔

نہ صرف یہ بلکہ صاحب ثروت افراد کے زیر عتاب بھی رہتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے حقوق بھی اس طرح مانگتے ہیں جیسے کوئی گناہ کررہے ہیں ان کی مراعات اور سہولیات کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا،مزدوروں کے عالمی دن پر جو خاص دن ان کے لیے سال میں ایک مرتبہ آتا ہے اس پر بھی یہ غریب مزدور چھٹی نہیں کرتااپنے اور گھروالوں کا پیٹ بھرنے کے لیے نہ سردی، نہ گرمی، نہ بارش نہ دھوپ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا یہاں تک کہ آرام کی پرواہ بھی نہیں کرتا اور آخری سانس تک محنت کش مزدور ہی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا دامن ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے مزدور کیلئے 1886ء دورسے بھی عصر حاظر المناک ہے فرق بس اتنا ہے کہ اس دورمیں مزدور کو پھانسی میں چڑھا دیا جاتا تھا ابھی کا مزدور مہنگائی سے ستایا ہوا خود اپنے ہاتھوں سے بچوں کو زہردے کر یا گلہ دباکر خودبھی نیند کی موت سوجاتاہے اور بچوں کو بھی نیندکی موت سلادیتاہے خدارہ!میں حکومت پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ حکومت کی جانب سے کم سے کم اُجرت مقررکرنے کے علاوہ مزدوروں کے لئے روٹی پانی،مکان کپڑا، صحت‘ تعلیم اور سماجی انصاف کے حصول کو بھی یقینی بنایا جائے ناکہ مزدور کی شان میں یکم مئی کے دن قصیدے پڑھے جائے کیونکہ ہمارا محنت کش بھائی غربت اور پَُرتشدد انتہاپسندی کے امتزاج کا شکار نظرآتا ہے جو یقیناً ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔

حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت غربت کے خاتمے اور مزدور کی بہتری کے لئے ایک دور رس جامع پالیسی کا اعلان کرے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ محنت کش،مزدور،غریب کو بھی جینے کا حق ملے اور مزدور کے بھوکے سوئیں ہوئے بچے اٹھ کر اپنے پیٹ کی أگ کو بجھالیں۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-