نہ نو من تیل ہوگا ، نہ رادھا ناچے گی

نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا  ناچے گی۔ یہ کہاوت تو آپ سب کو معلوم ہے۔ ویسے یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی کام نہ کرنا ہو یا کسی کی فرمائش سےجان چھرانی ہو تو ایسے حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں،اورشرائط کا ایسا پہاڑ کھڑا کر دیاجاتا ہے کہ نہ وہ شرائط پوری ہو نگی نہ وہ کام کرنے کی نوبت آئے گی۔اس کہاوت کا پس منظر  ہندؤ دھرم سے وابسطہ ہے۔ ہندؤ مذہب کےمطابق ”رادھا” رام کرشن کی محبوبہ تھی جومدھو بن میں گنگا کنارےناچتی تھی اور وقت کا راجہ کرشن کا ماموں اور ایک ظالم راجہ تھا اس نے رادھا کو محل میں رقص کے لئےبلا لیا،اور اگر رادھا محل میں جاتی تو کرشن ناراض ہوتا اور اگر انکار کر تی تو ظالم راجہ ان پر زندگی تنگ کر دیتا،تو رادھا نےمحل میں رقص کے لیے شرط رکھ دی کہ اس کی آمد پر” نومن تیل جمع کر کےاس تیل کےچراغ رو شن کئےجائیں تو راجہ اس زمانے میں نو من تیل کا بندوبست کرنے میں  ناکام ہو گیا اوراسطرح رادھا کی جان بچ گئی او ر وہی سے یہ کہاوت بن گئی کہ” نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچےگی۔۔۔”

آج پاکستان کی سیاست  بھی اسی کہاوت جیسی ہے، فرق بس اتنا ہے وہاں کرشن کی رادھا تھی یہاں ‘الیکشن کی رادھا’ ہے، اس   رادھا کی داستان بھی کرشن کی رادھا سے مختلف نہیں۔

آج  دوصوبوں کے  ۱۵ کروڑ لوگ الیکشن کی رادھا کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس رادھاکے ناچنےکے لیےبھی نو من  تیل مسئلہ بنا ہوا ہے، یہاں یہ نو من تیل کسی کی ذاتی انا کی تسکین ہے ، یہ نو من تیل قومی خزانے سے الیکشن کے اخراجات کا مسئلہ ہے،یہ نو من تیل سیکورٹی کا مسئلہ بندوبست ہے۔   یہ نو من تیل الیکشن کی رادھاکی شفافیت کے لیے انتخابی عملے کا اصول ہے ویسے تو  یہ الیکشن  اب نو من  تیل ہی بن گئے ہیں۔ جسے  موجودہ نگران حکومت اب  تک  ہر تاخیری حربے سے ملتوی کرنے کے جتن میں مصروف رہی اور اب بلاآخر کامیاب ہو ہی گئی الیکشن کمیشن نے پنجاب میں عام انتخابات کا شیڈول منسوخ کر دیا 30 اپریل کو پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات 8 اکتوبر کو ہو گے جس میں موجودہ ملکی معاشی و سکیورٹی، امن وامان کی خراب صورت حال دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل ہونے میں 5 ماہ لگیں گے، صرف فوج اور رینجرز کی تعیناتی سے ہی یہ الیکشن ہو سکتے ہیں جبکہ سول، آرمڈ فورسزاسٹیٹک ڈیوٹی کیلئے دستیاب نہیں، وزارت داخلہ کے مطابق فوج سرحدوں، اندرونی سکیورٹی، اہم تنصیبات کے تحفظ، غیرملکیوں کی سکیورٹی پر مامور ہے۔ سیاسی رہنما دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں، سیاسی رہنماؤں کو الیکشن مہم میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے،  مالی معاشی بحران ہے، آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ انتخابات کے لیے فنڈز جاری کرنا مشکل ہوگا، واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے 30 اپریل مقرر کی گئی تھی اور الیکشن شیڈول بھی جاری کر دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کردیئے۔
یہ سیدھا سیدھا آرٹیکل چھ کا مقدمہ بن چکا ہے۔

اب سب کی نگاہ سپریم کورٹ پر ہے کہ آئین کے ساتھ کھواڑ کرنے والوں کے ساتھ آئین کے محافظ آئین پاکستان پر پہرہ دینے والے اپنا دفاع کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔
اب پاکستان کے حالات حقیقی طور پر  نازک موڑ پر آن پہنچے ہیں۔   

موجودہ حکومت ہر حال میں الیکشن کروانے کے آئینی فریضے سے فرار چاہتی ہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملکی معیشت اور عوام کی حالت زار اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ عوام کسی صورت انہیں دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔اس لیے حکومت نے الیکشن روکنے کا ہر ہتھکنڈا استعمال کیا ان میں جبری گرفتاریاں، بے بنیاد مقدمے، صحافی اور  وکلاء کی آواز دبانے نیز پکڑ دھکڑ اور کارکنان کی گرفتاریوں اور  پرتشدد کاروائیاں سے لے کر دہشت گردی کے پرچے کاٹے جا رہے ہیں اس اثناء میں پچھلے کچھ دن سے زمان پارک لاہور میں جو کچھ ہوتا رہا،  پورا علاقہ مقبوضہ کشمیر کا منظر پیش کر رہا، ہزاروں آنسو گیس کے شیل فائر کئے اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال کیا، نیز پی ٹی آئی اور پولیس کی طرف سے مال روڈ کو جنگ و جدل کا میدان بنا دیا گیا، اور پھر سرچ وارنٹ کے نام پر جو آپریشن کرکے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا  اور  وہاں ہر چیز اکھاڑ پچھاڑ کے رکھ دی اسی ریاستی دہشت گردی کی مثال نہیں ملتی۔ دوسری طرف عمران خان پر مقدمات پر مقدمات بنا کر ان کو کیسزز میں الجھا کر الیکشن اور عوام سے دور رکھ کر گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے جس سے خان کی مقبولیت کا گراف نیچے کی بجائے اوپر بڑھتا جارہا ہےاور ان نام نہاد جمہوریت کے چمپین کا چہرہ کھل کے عوام کے سامنے آرہا ہے۔ عالمی میڈیا پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جوڈیشل کمپلکس میں جو کچھ ہوا اس کا چرچا ہے۔

جبکہ مریم نواز اپنے ہر جلسے میں ساری توجہ عمران خان پر تنقید کرنے میں صرف کرتی ہیں،اُن کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ پلڑے برابر کئے جائیں۔جس سے یہ بظاہر محسوس ہوتا ہے یہ سیاست اپ عوامی سیاست سے انتقامی میں بدل چکی ہے جس کے لئے پوری ریاستی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

اب یہی لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آتے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں ایسے فاصلے ہیں جیسے دو بڑے دشمنوں کے درمیان ہوتے ہیں،حالانکہ اپوزیشن اور حکومت جمہوریت کے دو  پہیئے ہیں جن پر وہ آگے بڑھتی ہے۔جب عمران خان اقتدار میں تھے تو انہوں نے اپوزیشن سے بات  نہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی،اب شہباز شریف وزیراعظم ہیں تو بجائے مفاہمت کے گرفتاری کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ حکومت عمران خان کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی  ہے۔وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ جنہیں ماحول ٹھنڈا کرنا چاہئے وہ  عمران خان کو دھمکی آمیز بیانات سے مذید  تقویت دیتے ہیں یہ سیاست آخر کس طرف کو چل نکلی ہے ایک ایسی بے یقینی اور بے چینی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس میں ہر نئے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔
مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ اعلی عدلیہ کیا فیصلہ سناتی ہے۔ عدالتی حکم اور تاریخ کے بعد اب ظالم راجوں کی طرف سے نومن تیل جمع کرنے کے راستوں میں آرٹیکل سے ہٹاتی ہے یا الیکشن کی رادھا’ رادھا ہی رہ جائے گی۔۔۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-