کشمیرہماراہے سارے کاساراہے——

یہ بات ہے 13؍اگست 1948ء کو بھارت خود کشمیر کے مسئلے کو لے کراقوامِ متحدہ پہنچ گیا، جہاںکشمیریوں کو آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق تسلیم کر لیا گیا، پاکستان اور ہندوستان نے، مسئلے کو جمہوری طریقے سے حل کی قراد داد کو تسلیم کیاجس کی بدولت وادیٔ کشمیر میں جنگ بندی عمل میں آئی، بد قسمتی سے 1951ء میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ، کشمیر میں قانون ساز اسمبلی قائم کر کے، اپنا موقف تبدیل کر لیا، اقوامِ متحدہ نے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا۔ 1962 ء میں بھارتی وزیر اعظم نے ایک بار پھر کشمیر میں رائے شماری کروانے کی یقین دہانی کرائی ،مگر وقت آنے پر بھارت اپنے وعدے سے پھر مکر گیااور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے بر عکس کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور داخلی مسئلہ قرار دینے لگا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی، ظلم و جبر کے باوجود کشمیریوں نے حقِ رائے دہی سے پیچھے ہٹنے سے انکار کر دیا، وہ آج بھی پُر اُمید ہیں کہ ایک نہ ایک دن انکی جدو جہد کامیابی سے ہم کنار ہو کر رہے گی۔انہوں نے بھارتی حکمرانوں پر واضح کر دیا ہے کہ وہ بھارتی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہیں،پاکستان نے دنیا کی توجہ بھارتی ظلم کی جانب مبذول کروانے کیلئے 1990 ء میں ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور اس دن عام تعطیل ہوا کرے گی،5اگست 2019 کو بھارت نے آئین کے آرٹیکل35اے اور370کو منسوخ کر کے ، کشمیر کی خود مختار حیثیت ہی ختم کر دی اور لاک ڈاؤن لگا کر کشمیریوں کی زندگی مفلوج کر دی۔

5اگست سے شروع ہونے والی سیاہ رات ابھی ختم نہیں ہوئی ، 90لاکھ کشمیریوں پر 10 لاکھ بھارتی افواج نے ظلم کی انتہا کر رکھی ہے، ایک لاکھ سے زائدحریت کے پروانوں نے جان کی قربانی دے کر آزادی کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے ، وہ دن دور نہیں جب کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو کر رہے گہندوستان اور پاکستان کے درمیان بد اعتمادی کی فضا تو اسی وقت پیدا ہوگئی تھی جب بھارت نے کشمیر پالیسی پر پینترا بدلا اور اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا پھر کشمیر کی ریاست اور کشمیریوں کے بارے میں بھارت کا رویہ انتہائی ظالمانہ اور متشددانہ ہوتا چلاگیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جبر ظلم اور خونریزی سے کسی بھی مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔ ہیگل کے نزدیک جو ریاستیں جبر کی بنیاد پر حکومتیں قائم کرتی ہیں در حقیقت وہ اپنی بنیادیں اس آہ و بقا پر رکھتی ہیں جو ریاست کو تاریکیوں کی طرف دھکیل دیتا ہے کشمیریوں کی چیخیں اور ان پر بربریت پر بلاشبہ اپنے اپنے مفادات میں اُلجھی اقوام عالم خاموش ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حق کے لئے ڈٹ جانے والا مسلمان اس سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہے جس کو مسمار کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تاریخ نے یہ بھی ثابت کیا کہ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں لیکن عزم ہمت اور حوصلے سے لکھی گئی داستان سنہرے حروف میں زندہ رہتی ہے امام حسین ؓکی مثال سامنے ہے حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے اور اس حق سے انہیں محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے ۔بھارت مسلسل جبر اور استبداد کے ذریعہ جہاں بھارتی مسلمانوں کو سٹیزن شپ کے ذریعے ان کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے وہاں کشمیر میں فوجی بربریت کے ذریعہ کشمیریوں کی زند گی پامال کر رہا ہے۔ سچن کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بھارت دفاعی اخراجات کی مد میں مختص خطیر رقم کی وجہ سے غربت میں دھنس رہا ہے لیکن بھارت کا جنگی جنون اسے کشمیر میں ظلم وستم پر آمادہ کئے ہوئے ہے۔

تین جون 1947ء کے منصوبے کے مطابق اکثریتی علاقے اپنی مرضی سے جس کے ساتھ چاہے الحاق کر سکتے ہیں لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے نقشے میں بھارت کو گورداسپور کا راستہ فراہم کرکے بھارت کی کشمیر تک رسائی آسان بنا دی۔ چوہدری محمد علی کی ایما پر قائداعظم نے کشمیر کا دورہ کرنے کا ارادہ کیا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائد سے کہا کہ ان کے وہاں جانے سے کشمیر کے حالات مخدوش ہو سکتے ہیں۔ یکم اگست کو مہاتما گاندھی ذاتی حیثیت سے وہاں پہنچے مہاراجہ سے ملاقات کی اور بخشی غلام محمد جو کانگریسی ذہن رکھتے تھے ان سے ملے اور کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کا منصوبہ تیار ہوگیا۔ کشمیر کی حسین و جمیل ریاست جو سیاحوں کے لیے دلچسپی کا مرکز تھی اور جہاں سے نکلنے والے دریا پاکستان کو سیراب کرتے تھے، بھارت کے لیے جنگی نکتہ نگاہ سے اس لیے اہم تھی کہ وہ کشمیر پر قبضہ کے بعد مغربی پاکستان کے علاقوں کی طرف پیش قدمی جاری رکھ سکے۔ چنانچہ لیاقت علی خان کے دور میں جب بھارتی فوج جوناگڑھ اور منادر سے پاکستان کی سرحد کی طرف بڑھیں تو لیاقت علی خان نے ہر کارروائی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے اپنا آہنی مکہ فضا میں لہرایا۔

چنانچہ فوجوں کو واپس پلٹنا پڑا بھارت نے کشمیر میں سکھو ں ،سرکاری افواج اور مختلف تنظیموں کے ذریعہ قتل وغارت کو جو بازار گرم کیا اس میں دو لاکھ مسلمانوں کو نیست ونابود کردیاگیا تب سے اب تک اس بربریت میں دس گنا اضافہ ہوچکا ہے بھات ایک طرف تو پرامن طریقے سے اس مسئلہ کا حل نہیں چاہتا ۔دوسری طرف اقوام عالم میں مسلسل یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کی بے تدبیری کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ میں یہ دوٹوک اعلان کیا تھا کہ کشمیری عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا اور یہ اعلان اقوام متحدہ کی قراردادوںمیں بھی شامل ہوا جب کشمیر سے متعلق ہندوستانی آرٹیکل 370 کی شق آئین ساز اسمبلی میں پیش کی گئی تو سر گوپال سوامی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہم نے کشمیری عوام کے ساتھ جو کمٹمنٹ کررکھی ہے اس کمٹمنٹ کی رو سے کشمیریوں کو پورا موقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ مستقبل کا فیصلہ کر سکیں لیکن اس کے ایک سال بعد ہی بھارت نے اپنے وعدوں سے انحراف کر تے ہوئے کشمیر کو اپنا داخلی مسئلہ قرار دے کر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کر دیا اور کشمیر سے متعلق قراردادوں کو بالائے طاق رکھ دیا۔ بڑی طاقتوں کا خیال تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ دب جائے گا لیکن یہ مسئلہ آج بھی تمام حقائق اور شواہد کے ساتھ موجود ہے جلد یا بدیر بھارت کو اس مسئلہ کو کشمیریوں کی صوابدید کے مطابق حل کرنا ہوگا ن۔کوئی بھی ریاست نہ توطویل جنگ کی متحمل ہوسکتی ہے اورنہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو روکا جا سکتا ہے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-