کرپشن کا آغازکب اور انجام کیسے ممکن ………؟؟

انگریزی دور حکومت میں چھوٹی سی بدعنوانی برٹش انڈین ایمپائر کی بیوروکریسی کے نچلے درجوں میں پائی جاتی تھی لیکن سلطنت کی ایلیٹ انڈین سول سروس کے اعلیٰ ترین یا گزٹڈ رینک میں نسبتا کم ہی تھی – جو 1947 میں انگریزوں کے جانے کے وقت تقریبا ایک تہائی مقامی تھی۔ پاک و ہند کی تقسیم کے وقت پاکستان میںبھارت سے بڑی آبادی پاکستان منتقل ہوئی ہندوستان جانے والے سکھوں اور ہندوﺅں کی قیمتی جائیدادوں کو ایواکی ٹرسٹ پراپرٹی بورڈ کے کنٹرول میں ڈال دیا گیا اور جلد ہی بہت زیادہ بدعنوانی اور بدعنوانی کا سبب بن گیا کیونکہ طاقت اور اثر و رسوخ کے عہدوں پر بہت سے لوگوں نے اس پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی۔ نئی پاکستانی حکومت ، جو کہ حکومت کی تمام سطحوں پر بدعنوانی کی اب تک نہ سنی جانے والی سطح پر خوفزدہ تھی ، نے اس پر قابو پانے کے لیے کئی قوانین منظور کیے: اس کے منظور ہونے والے پہلے قوانین میں سے ایک بدعنوانی کی روک تھام کا ایکٹ 1947 تھا ، اس کے بعد 1948 میں خصوصی اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ اور پھر 1953 کے سخت سول سروس (کرپشن کی روک تھام) کے قوانین جن میں سرکاری ملازم کرپشن کا مرتکب قرار دیا گیا صرف اس صورت میں جب وہ “کرپٹ ہونے کی عمومی یا مستقل شہرت رکھتا ہو”۔پاکستان میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے کسی پاکستانی حکومت کے پاس کبھی سیاسی عزم یا حوصلہ نہیں تھا۔1958 میں کرپٹ اور نااہل سویلین انتظامیہ کی جگہ جنرل ایوب خان نے لے لی (1969 تک حکمرانی کی) ایوب خان نے سخت ، اینٹی کرپشن قانون سازی کی۔ تاہم ، صاف ستھری حکمرانی کے ایک مختصر عرصے کے بعد یہ بھی ‘معمول کے مطابق کاروبار میں بدل گیا۔’ ار یہی سلسلہ زولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں چلتا رہا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ہو گیا۔1977میں جنرل ضیاءالحق نے مارشل لا لگا کر بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور ایف آئی اے ان کے اپنے ماتحت رہی اور 1990 کی دہائی تک پاکستان کی اینٹی کرپشن ایجنسی (ACA) کی حیثیت سے بھی جاری رہی۔ اگرچہ جنرل ضیاءکے دور میں کرپشن پہلے سے بھی زیادہ پھلتی پھولتی رہی ، لیکن ان کے دو جمہوری جانشینوں کے تحت عروج پر پہنچ گئی: بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ، جو 1988 سے 1999 کے درمیان دو بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ شاہد جاوید برکی ، ورلڈ بینک کے سابق نائب صدر اور بعد میں پاکستان کے عبوری وزیر خزانہ نے (1996-1997) ، اندازہ لگایا کہ بے نظیر بھٹو انتظامیہ (1993-96) کے تحت بڑے پیمانے پر بدعنوانی نے پاکستانی معیشت کو 1996-97 GDP کے 20-25 فیصد (15 بلین امریکی ڈالر) کے درمیان نقصان پہنچایا 1997 میں نواز شریف نے اس سلسلے میں ایف آئی اے کی مکمل ناکامی کے پیش نظر اعلیٰ سطح کے بدعنوانی کے مقدمات کو سنبھالنے کے لیے احتساب بیورو قائم کیا۔ تاہم نواز شریف کی اپنی گندی شہرت کے پیش نظر جہاں بدعنوانی کا تعلق تھا اور حقیقت یہ ہے کہ صرف مقدمات نوازشریف کے حریف سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر اور سابق وزیر سرمایہ کاری آصف علی زرداری کے خلاف تھے ،یہ سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیںتھا زرداری نے مقدمے کے انتظار میں کئی سال جیل میں گزارے ہیں لیکن انہیں کوئی سزا نہ دی گئی ۔ جتنی کرپشن ان دو حکمرانوں نواز شریف اور بے نظیر کے دور میں پھلی پھولی شاہد ہی کسی اور دور میں ایسا ہوا ہو ۔ مشرف صاحب جو1999 میںنواز شریف کا تختہ الٹ کر آئے انہوں نے بھی کرپشن کے خاتمہ کو نظر انداز کئے رکھا اور من پسند لوگوں کو نوازتے رہے۔ بعد میں جب زرداری اور بعد ازاں نواز شریف کی حکومت آئی تو انہیں نے ایک دوسرے کے ساتھ مک مکا کرکے خوب لوٹا اور پاکستان کو اس سطع پر لے گئے جہاں سے پاکستان کونکلنے کے لئے کئی سال درکار ہوں گے اب رہا کرپٹ حکمرانوں اور کرپٹ سول سرونٹس کا معاملہ تو ملک میں کوئی ایسا قانون ہی نہیں جس سے ؛لوٹی گئی دولت واپس لیکر اس کرپٹ مافیا کو سزا دی جا سکے۔موجودہ احتساب بیورو بری طرع ناکام ہو چکا ہے بلکہ پورا نظام ہی زمین بوس ہو چکا ہے اب اس کی از سرے نو تعمیر کے لئے وقت اور دیانت داری اور سخت قوانین درکار ہیں (جاری ہے)

اپنا تبصرہ بھیجیں