جہاں علم طبقوں میں بٹ جائے، وہاں خواب ادھورے رہ جاتے ہیں اور قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں, تعلیم وہ چراغ ہے جو سب کے ہاتھ میں یکساں جلنا چاہیے، ورنہ اندھیرا صرف غریب کا مقدر نہیں، پوری قوم کا نصیب بن جاتا ہے، تعلیم کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، یہی وہ واحد ذریعہ ہے جو کسی قوم کے مستقبل کو سنوارتا ہے، تہذیب و تمدن کا شعور دیتا ہے، اور ترقی کی سیڑھی پر چڑھنے کا ہنر سکھاتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو چکی ہے، اور اس کا سب سے بھیانک چہرہ ’’تعلیم کا دہرا معیار‘‘ ہے، ایک ایسا المیہ جو نسلوں کی بربادی کی بنیاد رکھ رہا ہے، ہمارے ملک میں تعلیم ایک نفع بخش کاروبار بن چکی ہے، جہاں علم فروخت ہوتا ہے اور ڈگریاں نیلام ہوتی ہیں، جن والدین کے پاس وسائل ہیں، وہ اپنے بچوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکولوں، جدید تعلیمی اداروں اور انگریزی نصاب کی دنیا میں داخل کروا دیتے ہیں، جہاں بچوں کو نہ صرف عالمی معیار کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ اعتماد، تخلیقی سوچ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے، وہ بچہ علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو سمجھنے اور اس میں اپنا مقام بنانے کی تربیت پاتا ہے……
لیکن دوسری طرف غریب طبقے کا بچہ اسی ملک میں رہتے ہوئے، اسی نظام میں جیتے ہوئے، ایسی تعلیم سے محروم رہ جاتا ہے جو اسے صرف رٹے بازی، فرسودہ نصاب اور امتحانی نمبروں کے گرد گھومنے والی زندگی کا عادی بنا دیتی ہے، وہ اسکول جن کی دیواریں ٹوٹی پھوٹی ہیں، اساتذہ غیر تربیت یافتہ، کتابیں پرانی اور سلیبس وقت کے ساتھ مطابقت کھو چکا ہے، ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والا طالب علم نہ تو اپنے خوابوں کی پرواز بھر پاتا ہے اور نہ ہی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل ہوتا ہے، یہ دہرا تعلیمی نظام نہ صرف ذہنی و فکری ناانصافی کا باعث ہے بلکہ ایک منقسم معاشرے کی بنیاد بھی ڈال رہا ہے، ایک طرف وہ نوجوان تیار ہو رہے ہیں جو دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں، اعلیٰ ملازمتوں اور اختراعی سوچ کے مالک بنتے ہیں، تو دوسری طرف وہ نوجوان بھی پیدا ہو رہے ہیں جو صرف سرکاری ملازمت کے اشتہار، انٹرویو کی تاریخ اور رزلٹ کے انتظار میں زندگی کی سب سے قیمتی عمر ضائع کر دیتے ہیں، افسوس کہ تعلیم جو سماجی برابری اور ترقی کی کنجی ہونی چاہیے تھی.
آج محرومی، تفریق اور طبقاتی امتیاز کی علامت بن چکی ہے، اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو تعلیم کا دہرا معیار ایک خاموش معاشرتی دھماکہ ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ ہماری سماجی دیواروں میں دراڑیں ڈال رہا ہے، یہ دراڑیں تب تک گہری ہوتی رہیں گی جب تک ہم ایک منصفانہ، یکساں اور معیاری تعلیمی نظام متعارف نہیں کرواتے، جہاں امیر اور غریب کا بچہ ایک ہی معیار، ایک ہی زبان اور ایک ہی تربیت کے ساتھ مستقبل کا سامنا کرے، معاشرتی انصاف کا آغاز تعلیم سے ہوتا ہے، اور اگر انصاف تعلیم میں نہیں ہوگا تو کسی بھی نظام میں اس کی توقع فضول ہے، آج ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم کو کاروبار کے زمرے سے نکال کر عبادت اور قومی خدمت کے درجے پر کیسے واپس لایا جائے، ہمارے تعلیمی ادارے اگر خواب بیچنے کی فیکٹریاں بنے رہیں تو پھر ہماری قوم کا مقدر اندھیروں سے کبھی باہر نہیں نکل پائے گا.
وقت کا تقاضہ ہے کہ حکومت، ماہرین تعلیم اور معاشرے کا ہر ذمہ دار فرد اس دہرے معیار کے خلاف آواز بلند کرے، جب تک تعلیم کو سب کے لیے یکساں، معیاری اور جدید نہیں بنایا جائے گا، ہم ترقی کی راہ پر صرف خواب ہی دیکھتے رہیں گے، حقیقت کبھی نہیں پائیں گے، نصاب، زبان، سہولیات اور خواب اگر ایک جیسے نہ ہوں تو ترقی کبھی سب کی دہلیز تک نہیں پہنچتی، قوموں کی تقدیر کمرہِ جماعت میں لکھی جاتی ہے، مگر جب کمرہِ جماعت ہی طبقاتی تقسیم کا شکار ہو تو ترقی کی سطر کبھی مکمل نہیں ہوتی.
کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں.