مصطفیٰ عامر قتل کیس، قبر کشائی کے بعد حاصل کئے گئے نمونوں کی رپورٹ تیار کر لی گئی

نمونوں میں کسی بھی نشہ آور چیز کے شواہد نہیں ملے، قبر کشائی کے بعد مصطفی عامر کی باڈی سے 11 نمونے لئے گئے، رپورٹ پر پرنسپل انویسٹی گیٹر، معاون تفتیش کار اور ٹیکنیکل منیجر کے دستخط موجود ہیں

کراچی ( کرائم ڈیسک ) کراچی ڈیفنس میں دوست کے ہاتھوں قتل ہونے والے مصطفی عامر کی قبر کشائی کے بعد حاصل کئے گئے نمونوں کی رپورٹ تیار کر لی گئی، قبر کشائی کے بعد مصطفی عامر کی باڈی سے 11 نمونے لئے گئے، نمونوں میں کسی بھی نشہ آور چیز کے شواہد نہیں ملے، رپورٹ پر پرنسپل انویسٹی گیٹر، معاون تفتیش کار اور ٹیکنیکل منیجر کے دستخط موجود ہیں۔
جامعہ کراچی انڈسٹریل اینالیٹیکل سینٹر کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مصطفی عامر کی لاش سے لئے گئے نمونوں سے کسی نشہ آور یا زہریلی چیز کے استعمال کے شواہد نہیں ملے۔مصطفی عامرکی رپورٹ پولیس کو جمع کرائی جائے گی۔مصطفی عامر کی لاش کے چار مختلف جگہوں سے نمونے لئے گئے تھے۔دوسری جانب مقتول مصطفی عامر کے قتل میں ملوث ملزم ارمغان کے والد اور مقتول کی والدہ کو شامل تفتیش کرنے کیلئے سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار آرائیں نے ڈی آئی جی سی آئی اے، ایس ایس پی اور تفتیشی افسر کے نام خط لکھ دیا۔
خط میں ملزم ارمغان کے ممکنہ دہشت گردی، منی لانڈرنگ اور ملک دشمن عناصر سے تعلقات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔سپیشل پراسیکیوٹر کایہ بھی کہنا ہے کہ ملزم اور مقتول کے تمام قریبی دوستوں سے پوچھ گچھ کی جائے جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں۔ ملزم کی جائیداد، کاروبار، بینک اکاونٹس اور ٹریول ہسٹری بھی حاصل کی جائے جبکہ مقتول مصطفی عامر کے کاروبار، جائیداد اور سفری تفصیلات کا بھی جائزہ لیا جائے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ملزم ارمغان کے والد اور مقتول مصطفی عامر کی والدہ کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ تحقیقات میں یہ بھی دیکھا جائے کہ ملزم اور اس کے ساتھیوں کا دہشت گردوں یا ان کی مالی معاونت میں کوئی کردار تو نہیں، ملزم کی منی لانڈرنگ اور بین الاقوامی منشیات ڈیلرز سے تعلقات کے امکانات کو بھی جانچنے کی ضرورت ہے۔سپیشل پراسیکیوٹر نے اپنے خط میں خط میں کہا گیا ہے کہ مقامی پولیس سے بھی پوچھا جائے کہ وہ اس تمام عرصے تک خاموش کیوں رہی اور جرائم پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی، ملزم کے گھر اور ارد گرد کی سی سی ٹی وی فوٹیجز کا فرانزک کرایا جائے جبکہ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آنے والے مواد کو بھی کیس پراپرٹی کا حصہ بنایا جائے۔