کرم حادثہ

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان کے ہر حصے میں دہشت گردی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔اگر کراچی میں اسٹریٹ کرائم عروج پر ہے تو بلوچستان میں دہشت گرد کبھی ایف سی کے کارواں، آرمی کی چوکیوں ، عوامی مقامات اور بسز پرحملہ آور ہوتے ہیں۔کے پی میں پشاور کی مساجد اور بازار محفوظ نہیں۔اور اب کرم میں گاڑیوں پر فائرنگ اور اس کے نتیجے میں فسادات نے کوئٹہ کی کوچز سے مسافر نکال کر انہیں قتل کرنے کی بربریت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کیونکہ ایسے حادثات میں تو دہشت گرد عوام کو قتل کرتے ہیں۔لیکن کرم فائرنگ واقعہ میں تو بھائی بھائیوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔
جمعرات کی صبح ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار سے پشاور کے لیے 200 گاڑیوں پر مشتمل کانوائے روانہ ہوا تھا۔ مسافر گاڑیوں کے اچت پہنچتے ہی نا معلوم مسلح افراد نےگاڑیوں پر اندھادھند فائرنگ کردی ۔راکٹس اور دستی بم بھی استعمال کیے گئے۔اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا.جس کے نتیجے میں اب تک103 افراد جاں بحق ، جن میں 17 شیر خوار بچے اور 27 خواتین بھی شامل ہیں ۔
قبائلی ضلع کرم گزشتہ کچھ عرصے سے زمین کے تنازع کے باعث فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بنتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلعے کو باقی اضلاع سے ملانے والی شاہراہ پر وقتاً فوقتاً کبھی اہل تشیعہ تو کبھی سنی قبائل کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اکتوبر میں مسافر گاڑیوں پر حملے کے بعد یہ راستہ بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں کے بعد اسے کھولا گیا تھا۔اور سیکیورٹی کے ساتھ گاڑیوں کو قافلوں کی صورت میں گزارا جا رہا ہے۔ تاہم جمعرات کو سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود فائرنگ سے ہلاکتیں ہوئیں۔
کرم واحد شیعہ آبادی کی اکثریت والاقبائلی ضلع ہے۔جو تین اطرف سے افغانستان اور چوتھی جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔

کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں
پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہےاور سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔جمعے کےروز کرم میں گنجان آباد سنی اکثریتی علاقے بگن کے بازار میں مسلح افراد نے سینکڑوں دکانوں اور گھروں کوبھی نذرِ آتش کیا۔
قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس قدر بھاری مقدار میں اسلحہ ان جگہوں پر کیسے پہنچتا ہے؟ اگر کسی اور ملک سے توسیکورٹی فورسز اور بارڈر پر تعینات فورسز اپنے فرائض درست طریقے سے سر انجام دیں تاکہ دہشت گردوں کو جرات نہ ہو کہ وہ ہمارے ملک میں انتشار پھیلا سکیں۔ارباب اختیار و اقتدار ایسے حادثات کی روک تھام کی بجائے صرف مذمتی بیانات پر زور دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔حالانکہ اگر وہ چاہیں تومشران سے مذاکرات کر کے انہیں مصالحت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی لگا کر ایسے حادثات سے بچا جا سکتا ہے۔

اگر حکمرانوں کو ہماری پرواہ نہیں تو ہمیں خود ہی کچھ ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو ملک میں امن بحال کر سکیں۔مشران اور قبائلی سرداروں کو چاہیے کہ جرگہ میں اس فرقہ واریت کا سدباب کریں کچھ اصول و قواعد وضع کریں جن پر عمل پیرا ہو کر مزید جانی و مالی نقصان کو روکا جائے۔ہم تو وہ قوم تھے جنہوں نے یہود و نصاری کے ساتھ بھی صدیوں تک امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کی۔پھر ایسا کیا ہوا کہ ہم فرقوں میں بٹ گئے اور آپس میں جانی دشمن بن گئے۔زمین کے چند ٹکڑوں کی ملکیت کا جھگڑا چند نظریاتی اختلافات اس قدر اہم تو نہیں کہ انسانی جان سے بڑھ کر ہوں۔خطبہ حجتہ الوداع یاد رکھیے ہمارے لیے دوسروں کی جان، آبرو و مال اتنا ہی محترم و قیمتی ہے جتنا کہ ذی الحج کا مہینہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:”دیکھو عنقریب تمھیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمھارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔”
پھر ہم کیسے یہ بھول گئے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اور جہالت کی روش پر چل نکلے۔کاش حکمران، مشران اور عوام صرف یہ دو نکات یاد رکھیں۔فرقہ واریت سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو شاید ہم اپنے ملک میں امن بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
مگر علامہ اقبال نے خوب فرمایا تھا:”
حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت
عرض کي ميں نے ، الہي! مري تقصير معاف

خوش نہ آئيں گے اسے حور و شراب و لب کشت
نہيں فردوس مقام جدل و قال و اقول

بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کي سرشت
ہے بد آموزي اقوام و ملل کام اس کا

اور جنت ميں نہ مسجد ، نہ کليسا ، نہ کنشت!”

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-