پی ٹی آئی کی سیاست بند گلی میں ….؟

ایک محاورہ ہے کہ” کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے”۔

یہ ہی حساب گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں ہونے والے ناکام احتجاج کا ہوا۔پانچ دن حکومت اور اپوزیشن کی کشمکش کی وجہ سے پورا ملک نقصان میں ڈوبا رہا، ایک اندازے کے مطابق ملک کو ایک ہزار ارب کا نقصان ہوا۔سٹاک مارکیٹ جو اوپر ہی اوپر جا رہی تھی منگل کی شام اچانک چار ہزار پوائنٹ نیچے گر پڑی۔ متعدد سرکاری ملازمین اور مظاہرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی ضد پر اڑی رہیں۔ حکومت نے مذاکرات کئے نہ ہی ان کاکوئی مطالبہ تسلیم کیا۔اپوزیشن اس چیز کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتی رہی کہ وہ ڈی چوک تک پہنچ گئے ہیں لیکن پھر ڈی چوک میں جیسی سختی آئی اسے مظاہرین بالکل بھی نہ جھیل سکے، افراتفری پھیل گئی اور سب کچھ تتر بتر ہو گیا۔

اس احتجاج میں ہونے والی مبینہ اموات سے متعلق  اس وقت تک نہ ختم ہونے والی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے سیکڑوں ہلاکتوں کا الزام لگایا جارہا ہے جبکہ حکومتی موقف یکسر مختلف ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد سے اب تک جو بھی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے وہ سب پی ٹی آئی پر خود ہی الٹی پڑی ہے جس کی بنیادی وجہ مشاورت کا فقدان ہے۔ 9مئی کا سانحہ ہو یا اس کے بعد جتنے بھی احتجاج ہو مارچ سب ایک کے بعد دیگر لا حاصل رہے جس کی اہم وجہ قیادت کے اندر دھڑے بندی، مشاورات اور لچکدار رویہ اور مذاکرات فقدان رہا۔  اب تو رک جانا چاہیے لیکن اپنے سوشل میڈیا اور بیرون ملک بیٹھے کچھ رہنمائوں کے اشتعال دلانے پر فوج سے ٹکرائو کی سیاست جاری رہی ہے اپنے لوگوں نے سمجھایا کہ سیاستدانوں سے بات چیت کرنی چاہیے لیکن یہاں بھی یہ کہا کہ بات چیت بھی اُن سے کرنی ہے جن سے ٹکر لی جا رہی ہے۔ اور یوں نہ سیاسی طور پر کوئی فائدہ ہوا نہ اپنے آپ کو جیل سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ جیتا ہوا الیکشن بھی ہار گئے۔ اس کے باوجود پالیسی ٹکرائو والی ہی رہی۔ اس دوران ساتھیوں نے پھر سمجھایا کہ فوج سے لڑائی ختم کریں، اپنے سوشل میڈیا کو کنٹرول کریں، باہر بیٹھے ہوئے رہنمائوں اور یوٹیوبرز کی مت سنیں پر پھر بھی رویہ ٹکرائو والا ہی رہا۔ احتجاج، احتجاج اور احتجاج، اس کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں۔ ہر بار بلکہ بار بار کوشش کی جا رہی ہے کہ عوام کا سمندر نکلے اور فوج کو مجبور کر دے کہ وہ وہی سب کچھ مانے جو عمران خان چاہتے ہیں لیکن انقلاب شوشل میڈیا پر بیٹھ کےنہیں آجاتے ہیں اس وجہ سے کوئی احتجاج کامیاب نہیں ہوا۔ احتجاج کرنے سے پہلے دھمکیاں دی جاتی ہیں اور گزشتہ چند مہینوں سے تو بار بار خیبر پختون خوا جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں سے پنجاب اور اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں تشدد پر ختم ہوتا ہے۔ ابھی جو حال ہی میں اسلام آباد کی طرف مارچ کیا گیا اُس کی تاریخ کا اعلان عمران خان نے بغیر کسی رہنما سے مشاورت کے کیا۔ پی ٹی آئی کے اکثرسینئر رہنما کا نہ صرف یہ کہنا تھا کہ مارچ کی تاریخ (24 نومبر) بہت جلد دے دی گئی بلکہ اس سے ٹکرائو بڑھے گا۔ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور بھی اس مارچ کے حق میں نہیں تھے، بیرسٹر گوہر، عمر ایوب، اسد قیصر، شبلی فراز بھی اس کے حق میں نہ تھے۔ جب اسلام ہائی کورٹ نے اس مارچ کی اجازت نہ دی تو پھر ذرائع کے مطابق سلمان اکرم راجہ کی بھی یہ رائے تھی کہ یہ مارچ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں عمران خان سے جیل میں ملاقات کر کے انہیں سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اُنہیں اُس دوران ملاقات کی اجازت نہ ملی۔

دوسری طرف پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی مارچ کے خلاف رائے ہونے کے باوجوداُسے اس فیصلے کا اختیار نہ تھا کہ وہ خود سے کوئی دوسرا فیصلہ کرسکے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اور باہر بیٹھے یوٹیوبرز اور رہنما اس مارچ کے نتیجے میں ممکنہ انقلاب کی نوید سناتے رہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کے اندر یہ کوشش بھی ہوئی کہ بشریٰ بی بی سے فیصلہ کروا لیا جائے لیکن اُنہوں نے ضد باندھ لی کہ مارچ ہو گا اور ڈی چوک ہی جانا ہے۔ مارچ جب چل پڑا تو چند دن پہلے کے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطوں کے نتیجے میں علی امین گنڈاپور دور روز عمران خان سے ملتے رہے اور اُنہیں سمجھایا کہ سنگجانی پر مارچ کو روک دیں۔ اس بار عمران خان تو مان گئے پر بشریٰ بی بی نہ مانیں اور یوں ایک بار پھر تحریک انصاف کی سیاسی چال نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ اس کو بہت بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔۔ جس طرح بغیر انتظامات کے ڈی چوک میں دھرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اسی تیزی سے 26 نومبر کو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور نے احتجاجی مارچ کے شرکا کو نامعلوم حالات کے رحم وکرم پر چھوڑا اور خود جلدی سے بھاگ جانے میں عافیت سمجھی۔ دھرنے کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی میں شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ علی امین گنڈاپور نے پارٹی عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی لاپتہ افراد ، ہراست میں لیے گئے کارکنان اور مبینہ اموات پر الگ سے بحث جاری ہے۔ جبکہ لطیف کھوسہ صاحب نے 278 لاشوں سے سلسلہ شروع کیا جو سو‘ پچاس سے ہوتا سینکڑوں لاشوں تک پہنچا اور آخرکار بیرسٹر گوہر نے اعلان کیا کہ وہ لاشوں کے ان تمام اعدادوشمار سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پارٹی لیول پر صرف بارہ انسانی جانوں کے نقصان کو کنفرم کرتے ہیں۔ باقی جو کچھ کہا گیا ہے یا کہا جارہا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اندازہ کریں کہ اتنی بڑی پارٹی کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں لاشوں کا کہنے کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ ان خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔ کسی نے کہا کہ سینکڑوں شہید ہو گئے، کسی نے 270، کسی نے 150،کسی نے40-50افراد کے شہید ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر بعد میں کہنے لگے کہ آٹھ ورکرز کی شہادت کنفرم ہو چکی ہے جسکے بارے میں حکومت تحریک انصاف سے تفصیلات طلب کر رہی ہے۔

گویا اب تک اموات کے بارے میں ہی اتنا تضاد ہے تو وہ سیاست میں تو بلکل بند گلی میں جا پہنچی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ تحریک انصاف اپنی سیاست کا ازسرنو جائزہ لے۔ اب توکچھ سبق سیکھنا ہوگا

  پی ٹی آئی قائدین کو جس بالغ نظری اور ہوشمندی سے کام لینا چاہیے تھا وہ نہیں لیا جا سکا۔ سیاسی تحریکوں میں اہم مرحلہ ہوتا ہے کہ کب کہاں رکنا ہے مگر سیاسی نزاکتوں سے ناآشنا قیادت اس نکتے کو نہ سمجھ سکیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔ سیاسی احتجاجوں کو روکنے کے لیے حکومت نے جو پالیسی اختیار کی ہے‘ وہ مستقبل کے لیے بھی ایک مثال بن جائے گی۔ یہ آج کے حکمرانوں اور کل کی ممکنہ اپوزیشن کے حق میں کسی طرح نہیں ہوگا۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-